💗 "بیٹیاں بوجھ نہیں رحمت ہیں" 💖
وہ دسمبر کی ایک انتہائی سرد رات تھی راولپنڈی کی اس تنگ گلی میں واقع اس دو کمروں کے مکان میں اس وقت مکمل خاموشی تھی بائیں طرف موجود کمرے میں عائشہ, زینب اور فاطمہ بظاہر تو خاموش تھی مگر دل ہی دل میں اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھی دعا یہ تھی کہ " اے میرے مالک اس دفعہ ہماری بہن نا ہو ورنہ ابو غصہ کریں گے اور اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا ہمارے ساتھ کرتے ہیں" وہ تینوں ہی بہنیں اس وقت اپنی اپنی دعائیں مانگنے میں مصروف تھی کہ اتنے میں ساتھ والے کمرے سے بچے کے رونے کی آوازیں آنے لگی۔ سکینہ بی بی مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے تیری دائی اماں نے چھوٹی سی بچی کو کمبل میں لپیٹتے ہوۓ کہا "کیسی مبارکباد دائی اماں راشد آئے گا دوسرے شہر سے تو وہ تو گھر سر پر اٹھا لے گا اس نے مجھے کہا تھا کہ اس دفعہ بیٹی نہیں ہونی چاہیے سکینہ نے آنسو پونچھتے ہوۓ کہا سکینہ بی بی اس راشد کو تو اللہ ہی ہدایت دے۔ بیٹا ہو یا بیٹی یہ سب تو اللہ کا کام ہے اسے کہو خدا سے ڈرو شکر کرو اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے ورنہ ایسے لوگ بھی ہیں جو بیٹیوں کے لیے ترستے ہیں " دائی اماں اب بول رہی تھی اور اورسکینہ غائب دماغی سے سن رہی تھی کیونکہ زہن اب کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر تھا وہ صرف یہی سوچ رہی تھی کہ اب راشد کو پتا چلے گا کہ بیٹی ہوئی ہے تو کیا ہوگا کہ اتنے میں دائی ماں کی آواز کانوں میں پڑی بیٹی سردی بہت ہے اپنا خیال رکھنا میں عائشہ,زینب کو کمرے میں بھیجتی ہوں اور زیادہ سوچنا چھوڑ دو یہ سب اللہ کی دین ہے اسی میں اللہ کی مصلحت ہوگی۔ کہ اتنے میں دروازے سے سکینہ کی باقی بیٹیاں داخل ہوئی جو بلکل دبلی پتلی کمزور تھی تینوں بیٹیاں دوڑ کر ماں کے پاس آئی اور آنکھوں میں آس لیے ماں سے پوچھنے لگی " امی ہمارا بھائی ہوا ہے؟" لیکن سکینہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا جبکہ دائی ماں اب جا چکی تھی امی بتائے نا ہمارا بھائی ہوا ہے؟ نہیں میری جان نہیں ہوا بھائی تمھاری پھر سے بہن ہوئی ہے ۔ سکینہ نے آنسو پونچھ کہ مسکراتے ہوئے کہا عائشہ اور زینب بڑی تھی اور اس بات کو سمجھتی تھی کہ اب ابو آئیں گے تو کیا ہوگا جبکہ ابھی صرف چار سال کی تھی وہ بار بار اپنی نئی بہن کا منہ چوم رہی تھی امی اس کا نام کیا ہے فاطمہ نے پوچھا "ردا" ردا نام ہے آپ کی بہن کا سکینہ نے دہراتے ہوئے کہا-
سکینہ نیلم اور ریاض تینوں بہن بھائی تھے جن میں سکینہ سب سے چھوٹی اور لاڈلی تھی۔سکینہ کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی راؤف جو کہ سکینہ کا باپ تھاکھیتوں میں کام میں مصروف تھا کہ اچانک اس کے پیر پر سانپ نے کاٹ لیا اس وقت وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا کھیتوں میں تڑپتے ہوئے ہی اس کی موت ہو گئ۔ یاسمین(سکینہ کی ماں) نے اکیلے ہی اپنے بچوں کو پالا پوسا گھر گھر جا کر کام کرتی اپنے بچوں کی ہر جائز ضرورت کو پورا کیا وقت گزرتا گیا اور بچے بڑے ہوتے گئے سکینہ سب سے چھوٹی تھی لیکن ریاض اور نیلم سے پہلے اس کا رشتہ ہو گیا
اور وہ لاہور سے رخصت ہو کر راولپنڈی آگئی شادی کے شروع دنوں میں ساس کا رویہ اچھا تھا لیکن آہستہ آہستہ سکینہ کو کبھی جہیز کے طعنے ملتے تو کبھی کام چوری کے سارا دن ساس خود باتیں سناتی اور رات کو راشد کے آنے کے بعد اسے بھی سکینہ کی شکایتیں لگاتی جس کے بعد گالیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا سکینہ کے بچوں میں سب سےبڑی عائشہ تھی اس کی پیدائش کے وقت ساس بہت خوش تھی کہ پوتا آنے والا ہے لیکن سکینہ کو نہیں پتا تھا کہ بیٹی پیدا کر کہ اس نے کون سا گناہ کر دیا جو اب اسے گالیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی سی باتوں پہ مار بھی پڑتی اور زینب اور فاطمہ کی پیدائش پہ تو انہوں نے باقاعدہ رونا شروع کر دیا " راشد راشد آ دیکھ بیٹا ایک اور لڑکی پیدا کی ہے اس نے مجھے تو لگتا ہے میں کبھی اپنے پوتے کا منہ نہیں دیکھ سکوں گی یہ حسرت میں دل میں لیے ہی قبر میں چلی جاؤں گی" سکینہ نے روتے ہوئے راشد سے کہا جو ابھی ابھی دکان سے آیا تھا " اماں میں کیا کروں اب تو نے ہی اس منحوس عورت سے میری شادی کروائی ہے راشد نے جواب دیا اور واقعی پھر کچھ ہی عرصے بعد سکینہ کی ساس اس دنیا سے چلی گئی کچھ لوگ شاید اس بات کو یا تو سمجھتے نہیں ہیں اور یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ اولاد چاہے بیٹی ہو یا بیٹا وہ اللہ کی مرضی ہے اگر بیٹا نعمت ہے تو بیٹی بھی اللہ کی رحمت ہے اور راشد بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو ابھی بھی جانے سے پہلے سکینہ کو کہہ کہ گیا تھا کہ " مجھے بیٹا چاہیے اگر اس دفعہ بیٹا نہیں ہوا تو ماں بیٹیوں کو گھر سے نکال دو گا پڑی رہنا پھر سڑکوں پر" اب ردا کی پیدائش پہ سکینہ کو یہی ڈر تھا کہ راشد آئے گا تو کیا ہوگا
اگلے دن دوپہر کے وقت راشد گھر میں داخل ہوا تینوں بچیاں اپنی نئی بہن کے ساتھ کھیل رہی تھی جبکہ سکینہ کھانا بنانے میں مصروف تھی دھڑام کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہوا تو تینوں بچیوں نے سہم کر پیچھے دیکھا جہاں غصے سے سرخ چہرا لیے راشد کھڑا تھا دروازے کی آواز سن کر سکینہ بھی باہر آگئی کون ہے زینب جو اتنی زور سے دواز.............. باقی الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے راشد غصے سے دیکھتا ہو سکینہ کی طرف آیا السلام علیکم! راشد آپ آگئے کھانا......
اس سے پہلے کہ سکینہ کچھ کہتی راشد کی گرج دار آواز گونجی " بکواس بند کر اپنی اور دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے کہا تھا نا میں نے کہ مجھے بیٹا چاییے لیکن تم منحوس عورت ہو تم کبھی بیٹا نہیں پیدا کر سکتی اور تم تینوں کیوں رو رہی ہو زندہ ہے ماں تمہاری ابھی مری نہیں ہے " آخر میں اپنی بیٹیوں کو بھی ڈانٹا جو باپ کو غصے میں دیکھ کر رو رہی تھی " راشد کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ یہ سب میرے بس میں نہیں یہ اللہ کے کام ہے وہ رب کسی کو بیٹا عطا کرتا ہے کسی کو بیٹی اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے ایسے بھی لوگ ہے جو بیٹیوں کو ترستے ہیں ان معصوم بچیوں نے آخر آپ کا کیا بگاڑا ہے اگر اللہ نے چاہا تو ہمارا بیٹا بھی ہو گا" زیادہ مولانی صاحبہ بنے کی ضرورت نہیں تم منحوس ہو تم مجھے کبھی بیٹے کی خوشی دے ہی نہیں سکتی " سکینہ آنکھوں میں آنسو لیے دروازے کو دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ ظالم انسان ابھی ابھی جا چکا تھا۔
ردا کی پیدائش کے بعد اب راشد کچھ زیادہ ہی سخت ہو گیا تھا دو وقت کی روٹی تو بیوی بچوں کو دیتا تھا لیکن اگر اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی تو سکینہ اور بچوں کو اسے کہتے ہوۓ بھی ڈر لگتا کیونکہ راشد غصے میں آکے گھرکی چیزیں توڑنا شروع کر دیتا اگر سکینہ کچھ کہتی تو اسے اور بچیوں کو بھی مارتا اس سب سے تنگ آکر سکینہ نے خود کپڑے سینے شروع کر دئیے اس طرح جو چند پیسے اسے ملتے ان پیسوں سے اسنے اپنی بیٹیوں کو ایک سرکاری سکول میں داخل کروایا ۔
اولاد دینا اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں:
ترجمہ: تمام بادشاہت اللہ ہی کی ہے آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے بخشتا ہے یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے وہ تو جاننے والا( اور)قدرت والا ہے
سورۃ :الشوری
آیت: 49_50
بے شک اولاد دینا صرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہے جب ردا 3 سال کی ہوئی اللہ نے سکینہ اور راشدکو ایک ساتھ دو بیٹوں سے نوازا سکینہ تو خوش تھی ہی لیکن راشد کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی سکینہ نے اسے زندگی میں کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا عائشہ, زینب,فاطمہ اور ردا بھی بہت خوش تھی ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اب ابو کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا مگر یہ محض خیال ہی رہا کیونکہ ریحان اور آیان کی پیدائش کے بعد بیٹیوں کے ساتھ راشد کا رویہ اور سخت ہو گیا وہ بیٹوں کو تو سر پر بٹھا کر رکھتا تھا جبکہ بیٹیوں کو کمتر سمجھتا ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا بہنوں کے ساتھ باپ کے رویے کو دیکھتے دیکھتے ریحان اور آیان کا رویہ بھی ان کے ساتھ خراب ہوتا گیا
چاروں بہنیں ان سے بڑی تھی لیکن وہ دونوں اپنی بہنوں کا بلکل بھی احترام نا کرتے اگر سکینہ ڈانٹتی تو راشد سکینہ سے لڑتا ان دونوں کیلئے وقت کے ساتھ ساتھ وہ دونوں جتنے بڑے ہوتے گئے اتنے ہی بتمیز بھی ہو گئے
" نہیں بھائی میں راشد سے پوچھ کر آپکو فون کروں گی ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی " سکینہ اپنے بھائی سے بات کر رہی تھی ریاض جو کہ سکینہ کا بھائی تھا اور اس کے بیٹے کی شادی تھی وہ سکینہ کو بھی شادی میں آنے کی دعوت دے رہا تھاشادی کےبعد سکینہ کا کہی بھی آنا جانا بہت کم ہوگیا تھا وجہ تھی راشد کا رویہ وہ سکینہ کو کہی جانے نہیں دیتا تھا لیکن اب بھائی کے بار بار اصرار کرنے پہ اسنے سوچا ایک دفعہ راشد سے پوچھ لیتی ہوں شاید اجازت دے دیں بچے بھی اتنے سالوں بعد ماموں اور خالہ سے ملنے کو بے تاب تھے اس لیے انہوں نے بھی ماں کی منتیں شروع کر دی" امی پلیز آپ ابو سے آج ہی پوچھنا" یہ عائشہ تھی جو جانے کے لیے کچھ زیادہ ہی بے تاب تھی " اللہ کرے ابو اجازت بھی دیں دے" زینب نے بھی اپنی دعا شامل کی " اچھا اچھا اب بس بھی کر دو آج کرتی ہوں تمہارے ابو سےبات اب سو جاؤ رات کو راشد کے آنے کے بعد سکینہ نے بات شروع کی لیکن راشد نے پہلے تو صاف انکار کر دیا مگر پھر سکینہ کے بار بار اصرار کرنے پر وہ اس شرط پہ مانا کہ آیان اور ریحان دونوں راشد کے پاس ہی رہے گے چاروں بیٹیوں اور سکینہ کو اجازت مل گئی تھی جانے کی آیان اور ریحان تو ویسے بھی باپ کے پاس زیادہ خوش رہتے۔
صبح ہفتے کا دن تھا جب سب بچیوں کو پتا چلا کہ انہیں جانے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ سب خوشی خوشی سامان باندھنے میں مصروف ہو گئے یہ جانے بنا کہ یہ سفر کچھ لوگوں کی زندگی بدل دینے والا ہے اور کچھ کی زندگی ختم کرنے والا ہے
Continue
Next Upload Soon
Post a Comment