سچی کہانی : بدبخت
قسط نمبر 3
نمل کو باہر بھاگتا دیکھ کر جازب بجلی کی پھرتی سے اسکی طرف لپکا اس سے پہلے کہ وہ چلاتی وہ اسکے منہ پر ہاتھ رکھ اسے گھسیٹتا ھوا اندر لایا اس نے خود کو چھڑانے کیلیۓ بہت ہاتھ پاٶں مارے لیکن جازب کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ وہ تھک کر رونے لگی ۔۔۔
جازب نے اسکا منہ کپڑے سے باندھا اور ہاتھ بیڈ کے ساتھ باندھ کر باہر آگیا ۔۔۔
سلام کر کے وہ شاہ جی کے بغل گیر ھوا ۔۔۔
وقاص لالا کے بندوں نے تم پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی ؟؟ شاہ جی کی بھاری آواز کوریڈور میں گونجی ۔۔۔۔
کوٸ نقصان تو نہيں ھوا خیر سے ھے نا سب ؟
جی شاہ جی ۔۔۔۔
لالا سے تو میں خود جاٶنگا اب ملنے مجھے ذرا تفصيل سے بتاٶ ھوا کیا تھا؟
جازب سگریٹ سلگا کر اسد کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔
گاڑی خراب ھو گٸ تھی بابو کے گیراج میں کھڑی کرکے ھوٹل پر چاۓ پی رھے تھے ھم جب اسکے بندوں نے ھمیں دیکھا میں سمجھ گیا کہ یہ کچھ کریں گے ضرور وہ بھی تین بندے تھے اور تینوں کے پاس اصلحہ تھا۔۔۔
شاہ جی غصے سے بولا تمھاری گنز کہاں تھیں ؟
ھماری گنز گاڑی میں تھیں میرے پاس ایک تھی گن لیکن گولیاں دو تھیں ۔۔۔۔۔
وہ حملہ ضرور کرتے یا گن پوائنٹ پر ھمارا مال لے اڑتے لیکن ھم جلدی سے وہاں سے نکلے گیراج سے دوسری گاڑی لے کر آبادی کیطرف چلے گۓ ۔۔۔۔
چھوڑا کیوں؟ ان خبیثوں کا مقابلہ کرتے تمھیں تو ان کھلونوں کی بھی ضرورت نہيں تھی شاہ جی گن کیطرف اشارہ کرکے بولے ؟
میں مقابلہ کر سکتا تھا انکا لیکن اسلیۓ نہيں کیا کہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ تھی انکی جوابی فاٸرنگ سے کسی کو بھی نقصان پہنچ سکتا تھا پھر پولیس بھی آجاتی ایسے میں اپنی گاڑی لے کر نکلنا ھمارے لیۓ ممکن نہيں تھا پھنس جاتا ھمارا مال۔۔۔ ساری محنت سارا پیسہ ضائع جاتا۔۔۔۔۔
شاہ جی مسکراۓ تو جازب بھی ھنس کر بولا شاہ جی کچھ جگہوں پر جوش سے نہيں ھوش سے کام لیا جاتا ھے۔۔۔۔
پھر گاڑی کیسے لاۓ اپنی واپس ۔۔۔۔
وہیں کسی کے گھر میں کود پڑے ھم کچھ دیر میں عامر گاڑی اپنی لے آیا انکو شک بھی نہیں ھوا کہ ھم تھے کس گاڑی میں وہ ھمیں وہیں کار کے آس پاس پارکنگ میں ڈھونڈتے رہے ۔۔۔۔
شاہ جی نے فخریہ انداز میں جازب کو سراہا ۔۔۔۔
اسد چاۓ کا سپ لے کر بولا شاہ جی اس دفعہ دوسرا مال بڑا ٹاٸیٹ ہاتھ لگا ھے دکھنے میں تو چھوٹی سی لیکن ھے پوری توپ شے آپکو بہت پسند آۓ گی بڑی تیز ھے ۔۔۔
شاہ جی نے خوشی سے اسکا کندھا تھپتھپایا ۔۔۔
کتنے کی ھے وہ توپ شے جازب کیطرف دیکھ شاہ جی نے پوچھا ؟؟؟
یہی پچیس کے لگ بھگ ھوگی ابھی پیک ھے پہلے میں دیکھ لوں پھر آپکی طرف کچھ دن میں روانہ کر دونگا ۔۔۔۔
نمل سب سن رہی تھی وہ انکی باتیں سن کر اور بھی زیادہ ڈر گٸ ۔۔۔
کون لوگ تھے یہ اور کس مال کی بات کر رھے تھے اور توپ شے کس کو کہہ رھے تھے ؟
پچیس کی تو میں ہی ھوں اپنا سوچ کر وہ بوکھلا کر نم ھوتی آنکھوں سے رب کو یاد کرنے لگی اور اپنی حفاظت کی دعائيں مانگنے لگی ۔۔۔۔
___
بختی نے رو رو کر اپنا برا حال کیا ھوا تھا وہ مسلسل خود کو کوس رہی تھی کہ یہ سب اسکی وجہ ھوا ھے وہ دروازہ اسی وقت بند کر دیتی تو آج یہ سب نا ھوتا وہ اس قدر ذہنی اذیت میں تھی کہ اپنے جسم پر پڑے نیل بھولی ھوٸ تھی جو دیوی نے اسے گھر آکر خوب پیٹا تھا۔۔۔ اسے ایک ایک سانس اپنے لیۓ نمل کے احساس سے پھانس کیطرح لگ رہی تھی رات کا ایک ایک پل اسکا کانٹوں پر لوٹتے ھوۓ گزر رہا تھا وہ دل وجان سے اللہ اللہ کرتی نمل کی خیریت کی دعا کرتی رہی ۔۔۔۔
____
حافظ صاحب کو ھوش آچکا تھا انکے لبوں پر ایک ہی دعا تھی نمل کو اپنی حفاظت میں رکھنا یا اللہ میری بچی کو انکے شر سے محفوظ رکھنا ۔۔۔۔
رات نے چاروں طرف اپنا اندھیرا پھیلا رکھا تھا نمل دعاٸیں مانگتی مانگتی سو گٸ ۔۔۔
جازب نشے میں دھت کمرے میں داخل ھوا تو اسکی نظریں نمل کے چہرے پر جم گٸیں کھڑکی سے چاند کی روشنی اسکے پھول سے شاداب سے چہرے پر پھیلی ھوٸ تھی جازب لڑکھڑاتا ھوا اسکے قریب آیا تو سنبھل نا سکا سیدھا نمل کے اوپر جا گرا نمل ایک دم آنکھیں کھول کر بوکھلاہٹ میں چلاٸ پر منہ پر باندھے کپڑے کیوجہ سے اسکی چیخیں حلق میں ہی رہ گٸیں ۔۔۔
جازب نے اسکی آنکھوں میں جھانکا جہاں بہتے آنسوٶں میں رحم کی بھیک تھی ۔۔۔ جازب نے نمل کے منہ سے کپڑا کھولا تو خوف سے اسکی آواز حلق سے نکل ہی نہيں رہی تھی وہ بمشکل آنسوٶں سے رندھے ھوۓ لہجے میں بولی ۔۔ خدا کاواسطہ ھے کچھ مت کرنا میرے ساتھ ہٹو میرے اوپر سے ورنہ میں تمھیں بھی جان سے مار دونگی اور خود کو بھی ۔۔۔
جازب کو ھنسی آگٸ وہ اسکے ھونٹوں پر انگلی پھیرنے لگا۔۔۔۔ اففففف تمھارا یہ بھرم یہ انداز۔۔۔۔۔
وہ حقارت سے چیختے ھوۓ بولی مت چھوو مجھے اپنے ان گندے ہاتھوں سے ۔۔۔۔
جازب ھوش میں کہاں تھا نا وہ ھوش میں آنا چاھتا تھا ۔۔۔۔
وہ اسکے لبوں پر اپنے لب رکھنے کیلیۓ قریب ھوا تو وہ پھر چلاٸ تم ھوش میں نہيں ھو نشے کی حالت میں میری عزت کو پامال مت کرو تم تھوک لو مجھ پر ہزار بار میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دو میں اف تک نہيں کرونگی لیکن خدارا میری عزت سے مت کھیلو ۔۔۔
جازب کو اسکی التجا اسکا سسکنا سناٸ ہی نہيں دیا وہ اسکے اتنا قریب تھا کہ دونوں کی سانسیں ٹکرا رہی تھیں آپس میں ۔۔۔
جازب کی نظر اسکے ھونٹوں سے ھوتی ھوٸ اسکی گوری گردن کے کالے سیاہ تل پر آ ٹکی جیسے ہی جازب کے ھونٹوں نے اسکی گردن کو چھووا تو
نمل نے روتے روتے قرآن کی آیات پڑھنا شروع کر دیں جازب نے ایک پل سر اٹھا کر اسے آیت الکرسی پڑھتے ھوۓ دیکھا پھر وہیں اسکا سر اسکے کندھے پر جھول گیا اور وہ ھوش سے بیگانا ھو گیا۔۔۔۔
وہ بابا کو یاد کر کے بلک بلک کے روٸ کہ انکا کیا حال ھوگا وہ ٹھیک ھونگے بھی یا نہيں ۔۔
نمل کے آنسو جازب کے چہرے پر گرتے رھے وہ پوری رات اپنے بابا کو یاد کرتی رہی اور آیت الکرسی کا ورد کرتی رہی اپنی حفاظت کی اور بابا کی خیریت کی دعاٸیں مانگتے مانگتے کب اس پر نیند کی دیوی مہربان ھوٸ اسے پتہ ہی نہيں چلا اور سو گٸ۔۔۔
____
امی امی عضد کچن میں داخل ھوتے ہی صبح سویرے نرگس کو آوازیں لگانے لگا ۔۔۔
وہ اسکی آواز سن کر جلدی سے کچن میں آٸ ۔۔۔ کیا ھو گیا خیریت تو ھے صبح صبح کیا ماں کے نام کی اذانیں دے رھے ھو ۔۔۔۔
وہ چاۓ کا پین ماں کے آگے رکھ کر بولا یہ حال دیکھیں اسکا اور ذرا گلاس کو سونگھے کتنی گندی بدبو آرہی ھے۔۔۔ کونسی کام والی رکھی ھے آپ نے فارغ کریں اسکو اتنا گندا کام کرتی ھیں سب ۔۔۔۔
نرگس سر پکڑ کربیٹھ گٸ لوگ ھفتے میں اتنے کپڑے نہيں بدلتے جتنی مجھے تمھاری وجہ سے ماصیاں بدلنی پڑتی ھیں۔۔۔۔
وہ اپنے مخصوص نخریلے انداز میں بولا پیسے لیتی ھیں وہ امی مفت کا کام نہيں کرتیں کہ ان سے یہ بھی نا کہا جاۓ کہ کام صفائی سے کرو۔۔۔
بیٹا جتنے تمھارے نخرے ھیں نا خود کر لیا کرو آکر آفس سے جھاڑو برتن ۔۔۔۔
وہ گلاس دھوتے ھوۓ بولا واہ اماں واہ اب یہی کام رہ گیا تھا میرے کرنے کو ۔۔
وہ بیزاری سے بولی کام والی تو تجھے ماں جیسی ملنی نہيں گھر والی ڈھونڈ لے کوٸ ۔۔۔۔
امی اگر وہ بھی میری طرح صفائی پسند نا ھوٸ تو۔۔۔۔۔
نرگس اسکے لیۓ چاۓ بناتے ھوۓبولی ۔۔۔ توووو کوٸ بات نہيں وہ بھی بدل لیں گے۔۔۔۔
عضد ھنس پڑا اب ایسا تو نا کہیں نا ۔۔۔۔
ایسا کیوں نا کہوں میں ؟ تم تو ٹھہرے نفسیاتی مریض ۔۔۔ بدلو اپنی عادت کو کوٸ نہيں رہے گی اسطرح میرے بچے تمھارے ساتھ ۔۔۔ مجھے تو یہ پریشانی کھاۓ جاتی ھے کہ کیا ھوگا تمھارا؟ تم تو کسی کاجوٹھا پانی تک نہيں پیتے ۔۔۔ بیوی کیسے رکھوگے ؟؟؟
وہ ماں کو پیار سے گلے لگا کر بولا ارے آپ ہلکان کیوں ھوتی ھیں بس رہنے دیں ان باتوں کو میں نے نہيں کرنی شادی ۔۔۔۔
وہ پیار سے اسکا ماتھا چومنے لگی ۔۔ کیوں نہيں کرنی شادی اللہ پاک تمھارے نصیب اچھے کرے۔۔۔ سدا تو تمھارے ساتھ نہيں میں ۔۔۔۔
امی۔۔۔۔۔۔ ایسی باتیں نا کیا کریں مجھ سے ۔۔۔۔
بیٹا ماں ھوں نا فکر ھوتی ھے۔۔۔۔
میری مان بدل خود کو اپنی عادتوں کو میرے بچے کوٸ پارسا پاک دامن لڑکی نہيں ملے گی تجھے۔۔۔ حالات سے لوگوں سے سمجھوتا کرنا سیکھ۔۔۔ ورنہ کل کو بلکل تنہا رہ جاۓگا ۔۔۔۔
____
کھڑکی سے چھڑھتے سورج کی روشنی سیدھا نمل کے چہرے پر پڑی تو اسکی آنکھ کھلی جازب رات کی طرح ہی اسکے کندھے پر سر رکھے سویا ھوا تھا ۔۔۔
بھوک اور پیاس کی شدت سے وہ نڈھال ھو رہی تھی اوپر سے رات سے بندھے ہاتھوں سے وہ اکڑ کر رہ گٸ اوپر سے جازب کا بوجھ ۔۔۔۔
درد کی شدت سے اسکے آنسو نکل کر جازب کے چہرے پر گرے تو وہ آنکھیں مسلتا اٹھا خود کو آدھا نمل کے اوپر گرا دیکھ کر سیدھا ھوا ۔۔۔۔
مجھے کھول دو پلیز مجھ سے اب درد برداشت نہيں ھو رہا۔۔۔۔
جازب نے جلدی سے اسکے ہاتھ کھولے جو ہلکے سے نیلے ھو رھے تھے ۔۔۔ وہ اسکے ہاتھ دبانے لگا تو نمل نے پیچھے کھینچ لیۓ ۔۔۔
ہاتھ نہيں گلا دبا دو اس اذیت اور ذلت سے چھٹکارا تو ملے گا مجھے اور تمھارے بدلے گی آگ بھی ٹھنڈی ھو جاۓ گی ۔۔۔۔
وہ اسکی نڈھال ھوتی حالت دیکھ کر کھڑا ھوا۔۔۔
اگر چھٹکارا ہی کرنا ھوتا تم سے یا بدلے کی خواہش ھوتی تو تمھیں یہاں اپنے ساتھ نا لاتا۔۔۔۔
وہیں تمھارے گھر میں تمھارا کام تمام کرتا جب تم نے مجھ پر تھوکا تھا ۔۔۔۔
وہ بوجھل آنکھوں سے بولی کیا چاہتے ھو تم۔۔۔۔۔۔
جازب خاموشی سے اسے دیکھنے لگا اور چپ چاپ کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد اسد اسکے کمرے میں ناشتہ لے کر داخل ھوا۔۔۔۔
نہيں کھانا مجھے ۔۔۔۔ لے جاٶ یہاں سے ۔۔۔۔
اگر نہيں کھاٶ گی تو مر جاٶ گی۔۔۔۔۔
وہ گھٹنوں پر سر رکھ کہ بولی یہی چاہتی ھوں میں ۔۔۔۔
اسد نے جازب کو آواز لگاٸ وہ تولیۓ سے منہ رگڑتا اندر آیا ۔۔۔
خود ہی نبٹ اس سے اب۔۔۔۔ تو ہی اٹھا کر لایا تھا نا اب میڈم کے نخرے بھی اٹھا ۔۔۔۔
تولیہ کرسی پر پھینک کر وہ اسکے سامنے بیٹھا کیوں نہيں کھا رہی تم۔۔۔۔
تمھاری حرام کی کماٸ کا زہر بھی نا کھاٶں میں یہ تو پھر روٹی ھے ۔۔۔۔
اچھااااا جازب کو غصہ آگیا تو کیا اب میں جا کر تمھارے لیۓ محنت مزدوری کر کے کھانا لاٶں ؟؟؟
وہ منہ پھیر کر خاموش رہی ۔۔۔۔
دیکھو کھالو کھانا تھوڑی جان آۓ گی اس نازک سے وجود میں ورنہ یہاں سے بھاگو گی کیسے؟؟؟
جازب کی بات سن کر وہ ناک پھلا کر بولی بے فکر رھو تمھاری جان لیۓ بنا نہيں بھاگونگی یہاں سے ۔۔۔
جازب زور زور سے ھنسا میری جان لینے کیلیۓ بھی تو جان میں جان ھونی چاھیۓ نا ۔۔۔۔
کھا لو وہ اسکی طرف ڈش بڑھانے لگا تو نمل اپنی جگہ سے کھڑی ھوٸ اور ڈش اٹھا کر فرش پر دے ماری ۔۔۔۔ نہيں کھانا مجھے کچھ بھی ۔۔۔۔۔
نمل کی اس حرکت پر جازب کا پارہ اچھا خاصا ھاٸ ھوا وہ اسکا منہ پکڑ کر بولا سمجھتی کیا ھو خود کو تم ۔۔۔۔
وہ خود کو چھڑانے لگی ۔۔۔
شرافت سے پیش آرہا ھوں تو سر مت چڑھ میرے ۔۔۔۔
شرافت ۔۔۔۔ اور تم ۔۔۔۔۔ دوسروں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والے شریف نہيں بے غیرت ھوتے ھیں تمھاری طرح ۔۔۔۔
بات تھی یا دھماکہ جازب نے تھپڑ دے مارا اسے ۔۔۔ وہ سیدھا بیڈ پر جا گری جازب کے تھپڑ سے اسکی ناک سے خون بہنے لگ گیا وہ غصے سے لڑاکا بلی کی طرح جازب پر لپکی اسکے ناخن سے جازب کا منہ چھل گیا ۔۔۔۔ جازب نے دونوں ہاتھ اسکی پیٹھ پر لے جاکر اسے قابو کیا ۔۔۔۔
وہ غصے سے روتے ھوۓ بلند آواز میں چلاٸ ۔۔۔۔ تمھاری ھمت کیسے ھوٸ مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ۔۔۔۔۔
وہ بھی اسی کی ٹون میں دانت پیس کر بولا بلکل ایسے ہی ہمت ھوٸ جیسے تم نے کی تھی ۔۔۔۔
وہ پھرچلاٸ جازب کو شور شرابا چیخنا بلکل پسند نہيں تھا ۔۔۔ وہ بلند آواز میں بولا چلاٶ مت ۔۔۔۔
نمل پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولی چلاٶنگی میں اس سے بھی زیادہ چلاٶنگی تم میرے جسم کو قابو کر سکتے ھو میری زبان کو نہيں ۔۔۔۔ وہ رو رو کر چیخنے لگی ۔۔۔
جازب کا دماغ گھوم گیا اسکی چیخوں سے وہ خاموش بھی نہيں ھو رہی تھی جازب کو غصے سے کچھ سمجھ نا آیا تو اس نے چلاتی ھوٸ نمل کے ھونٹوں چوم لیۓ ۔۔۔۔۔
یہ سب اتنا اچانک ھوا کہ نا جازب کو سمجھ آٸ نا اسے ۔۔۔۔
پل بھر دونوں ایک دوسرے کو حیرانی سے گھورتے رھے نمل بلکل سُن ھو گٸ تھی جازب نے حیرت سے منہ کھولے اپنے سینے سے لپٹی نمل کو خود سے الگ کیا ۔۔۔ وہ ریت کیطرح اسکے ہاتھوں سے پھسل کر فرش پر بیٹھ گٸ ۔۔۔
جازب کو غصے سے کمرے سے نکلتے دیکھ کر اسد نے روکا۔۔۔
یہ تیرے ھونٹوں پر خون اور یہ منہ پر ناخن کے نشان۔۔۔۔
جازب نے اپنے ھونٹوں پر لگا نمل کا خون صاف کیا اور چپ چاپ وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔
ایک گھنٹے بعد وہ کھانا لےکر نمل کے سر پر کھڑا تھا ۔۔۔ کھاٶ یہ کھانا ورنہ مجھے زبردستی اپنے ہاتھوں سے کھلانا پڑے گا ۔۔۔۔
نہیں کھانا مجھے ۔۔۔۔۔
جازب نے پھر زبردستی کی اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھلایا کھانا کچھ نوالے اس نے منہ سے گراۓ اور کچھ حلق سے اتارے کیونکہ جازب کی زبردستی کے آگے اسکی ضد بیکار تھی ۔۔۔۔
دوپہر کا کھانا اب خود کھا لینا ذرہ سی بھی چوں چاں کی تم نے یا زیادہ ہاتھ پیر مارے تو یاد رکھنا جہاں ھونٹ چھو کر تمھارا منہ بند کر سکتا ھوں وہاں سر سے پاٶں تک۔۔۔۔۔۔
جازب نے اسکے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔۔۔
پھر وہ اسکے بے حد قریب ھو کر بولا آگے تم خود سمجھدار ھو کیا کہنا چاہ رہا ھوں میں ۔۔۔۔ اور مجھ سے کسی رعایت کی امید مت رکھنا کیونکہ جو میں نے کرنا ھو وہ کر گزرتا ھوں بنا کسی کے ڈر اور خوف کے ۔۔۔۔
____
بختی صحن میں بیٹھی دیوی کے سر پر تیل لگا رہی تھی جب دروازے پر بیل بجی تو دیوی کے کہنے پر اس نے دروازہ کھولا ۔۔۔۔
دروازہ بجانے والے کی بھانچھیں کھل گٸیں بختی کو دیکھ کر۔۔۔ میں صدقے میں قربان ھماری قسمت کا دروازہ کب کھولو گی ان خوبصورت ہاتھوں سے اس نے جیسے ہی بختی کی طرف ہاتھ بڑھاۓ وہ فوراً پیچھے ہٹی ۔۔۔۔
انٹی جی بابو بھاٸ آۓ ھیں ۔۔۔۔
اسکے منہ سے بھاٸ کا لفظ سن کر بابو کا منہ ایسا بنا جیسے اسے کسی نے نیم کا شربت پلا دیا ھو ۔۔۔
دیوی جلدی سے اسکی بلاٸیں لیتی آگے بڑھی میری دیوالی کا چاند میرا پتر آیا آ جا بیٹا آ ۔۔۔۔
دیوی اسے پیار سے اندر لاٸ اور بندیا کو آواز لگاٸ
بندیا اری او بندیا دیکھ تو کون آیا ھے ۔۔۔۔
بندیا اپنے لمبے سیاہ بال لپیٹتی باہر آٸ تو بابو کو دیکھ کر کھل کھلا اٹھی ۔۔۔۔
بابو دیوی کا دور پرے کا بھانجا تھا جو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا اور بچپن سے بندیا کا محبوب بھی تھا ۔۔۔
ہر ہفتے وہ انکے گھر آتا ڈھیر سارے تحائف کے ساتھ ۔۔۔۔
بندیا اور دیوی خوب اسکی آٶ بھگت کرتیں تھیں دیوی کی یہی خواہش تھی کہ جلد از جلد وہ بندیا کو بیاہ کر لے جاۓ ۔۔۔ جبکہ حقیقت کچھ اور تھی وہ انکے گھر بختی کی خاطر آتا تھا۔۔۔۔
اسکی ھمیشہ یہی کوشش ھوتی تھی کہ بختی اس سے بات کرے ۔۔۔ وہ موقع پاتے ہی ایک ہی بات ضرور بولتا دیکھ بختی ایک بار میری بات مان لے بھاگ جا یہاں سے میرے ساتھ میں تجھے اس نرگ میں نہيں دیکھ سکتا ۔۔۔۔
اسوقت بھی وہ ان ماں بیٹیوں سے نظریں بچاۓ بختی کے پاس پہنچا اور اسکے نہایت قریب ھو کر بولا ۔۔۔ بختی ۔۔۔۔
وہ بری طرح سے ڈر کر پیچھے ہٹی ۔۔۔۔
ارے میری جان ڈرتی کیوں ھے اپنے عاشق سے وہ اسکے گال چھو کر بولا ۔۔۔۔
عین اسی وقت بندیا کچن میں داخل ھوٸ ۔۔۔ دونوں کو اتنا قریب دیکھ کر وہ بمشکل مسکرا کر بابو سے بولی ۔۔۔ یہاں کیا کر ھے ھو تم۔۔۔۔
بابو اس سے دوقدم پیچھے ہٹا کچھ نہيں پانی پینے آیا تھا ۔۔۔
مجھے آواز دے دیتے تم نے زحمت کیوں کی کچن تک آنے کی ۔۔۔۔
بابو للچاتی ھوٸ نظروں سے بختی کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔کبھی کبھی زحمت کرنا اچھا لگتا ھے ۔۔۔۔
بابو تو کچھ دیر بعد چلا گیا لیکن جو حالت دیوی اور بندیا نے بختی کی کی وہ ناقابل برداشت تھی ۔۔۔
___
نمل کو گھر سے غاٸب ھوۓ تین دن گزر گۓ تھے حافظ صاحب ابھی تک ھسپتال میں ہی تھے بیٹی کا غم ایسا لگا انکو کہ وہ بستر سے اٹھے ہی نہيں ۔۔۔۔
وہاں نمل کا حال برا تھا جازب دو دن سے غاٸب تھا وہ اسد اور عامر کی منت سماجت کر کر کے بھی تھک چکی تھی کہ کسی طرح وہ اگر اسے اپنی قید سے رہا نہيں کرتے تو کم از کم صرف اسکے والد کی خیر خبر لینے دیں کہ وہ کس حال میں ھیں ۔۔۔۔
یہاں بختی کی حالت بھی خراب تھی اسے ایک ہی غم ستاۓ جا رہا تھا کہ یہ سب اسکی وجہ سے ھوا تھا ۔۔۔۔
_____
بختی او بختی ۔۔۔۔۔ گوپال کی آواز پر وہ اسکے پاس آٸ
جی ماما جی ۔۔۔
میں حافظ صاحب کو دیکھنے جارہا ھوں کوٸ بھی نہيں ھے گھر کا بہت خیال رکھنا دروازہ ٹھیک سے بند رکھنا کوٸ بھی آۓ مت کھولنا وہ پیار سے اسے سمجھانے لگے ۔۔۔۔
بختی نے پریشانی سے ہاں میں سر ہلایا۔۔
تو پریشان نا ھو میں پیچھے سے تالا لگا جاتا ھوں آکر کھول لونگا فکر نا کر میں جلدی آجاٶنگا وہ اسے تسلی دے کر نکل گۓ ۔۔۔۔
بختی گھر کے سارے دروازے کھڑکیاں بند کر کے بیٹھ گٸ جو دروازہ گوپال لاک کر کے گیا تھا اسے بند نہيں کیا کہ وہ آکر باہر سے خود کھول لیں گے۔۔۔۔۔
گوپال کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد ڈور بیل بجی بختی نے گیٹ کے پاس جا کر پوچھا کون؟؟
باہر بندیا کی آواز تھی کھول دروازہ میں ھوں بندیا ۔۔۔
بختی نے جیسے ہی جلدی سے مین گیٹ کھولا تو کوٸ یک دم اسے دھکا دے کر اندر آیا۔۔۔
بختی بوکھلا کر دھکا دینے والے کو یکھنے لگی وہ بندیا نہيں کوٸ اور تھا۔۔۔۔۔
بختی کے ھوش اڑ گۓ ۔۔۔۔ وہ بے یقينی سے بولی باہر تو بندیا کی آواز تھی اور۔۔۔۔۔
جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔
https://pakeeza-ishq.blogspot.com/2021/06/bd-bhakat-episode-4.html
Post a Comment