Bd bhakat Episode 4

 

سچی کہانی : بد بخت
قسط نمبر : 4

بختی نے بوکھلا کر دھکا دینے والے کو دیکھا وہ بندیا نہيں بابو تھا۔۔۔۔
اس نے حیرت سے بابو کو دیکھا جسکی آنکھوں اور چہرے سے اسکی بد نیتی چھلک رہی تھی ۔۔۔
ابھی وہ خود کو سنبھال ہی نہيں پاٸ تھی کہ بابو اس پر بھوکے شکار کیطرح لپکا اس نے خور کو بچا کر اندر بھاگنا چاہا پر بابو نے اسے بری طرح زدوکوب کیا وہ دکھیاری خوف کے مارے چلا بھی نا سکی۔۔۔
کیا کر رھے ھیں آپ چھوڑیں مجھے۔۔۔
ارے میری رانی دو سال میں تڑپتا رہا میرے ارمان مچلتے رھے آج یہ موقع ہاتھ لگا کیسے چھوڑ دوں تجھے ۔۔۔۔
خود کو چھڑانے میں اسک قمیض آگے سے پھٹ گٸ اس نے بھاگنا چاہا اندر لیکن بابو نے دوبارہ اسے اپنے شکنجے میں لیا۔۔۔۔ بھاگتی کیوں ھے مجھ سے پیار کرتا ھوں تجھ سے میری جان ایسے نا تڑپا وہ اپنے ھوش کھوتے ھوۓ بولا۔۔۔
بختی چاھتے ھوۓ بھی خود کو اسکے شکنجے سے بچا نا سکی وہ اسکی عزت کی دھجیاں اڑادیتا۔۔۔۔لیکن قدرت کو کچھ او ہی منظور تھا گوپال اپنا واٸلٹ گھر بھول گیا تھا وہ گھر کیطرف واپس آیا عین اسی وقت گوپال لاک کھول کر اندر آیا تو بختی کی سسکیوں بھری آواز سنی چھوڑ دو مجھے کیا کر رھے ھو۔۔۔۔۔
گوپال بھاگتا ھوا لاٶنج میں آیا جہاں بختی کو بابو کے شکنجے میں دیکھ کر تلملا اٹھا۔۔۔۔
اور اسے پیچھے سے گریبان سے پکڑ کر کھینچا تو بابو سٹپٹا گیا گوپال نے چماٹوں کی برسات کر دی اس پر بے غیرت بے شرم انسان تیری اتنی ھمت کہ تو نے میری بختی پر ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔۔
بختی نے جلدی سے خود کو تخت پر بچھی چادر سے لپیٹا ۔۔۔۔۔
وہ گوپال کو دھکا دے کر بولا بس کر چاچا ۔۔۔ مجھے کیوں مارتا ھے پہلے اپنے گریبان میں جھانک ۔۔۔۔
تیرا کیا رشتہ ھے بختی سے میں اچھی طرح جانتا ھوں ۔۔۔۔
گوپال نے اسکا گریبان پکڑا کیا رشتہ ھے بتا ذرا کیا خناس بھرا ھوا ھے تیرے دماغ میں ۔۔۔۔
بابو نے گوپال کو دھکا دے کر صوفے پر پٹخا ۔۔۔۔
خناس میرے دماغ میں نہيں تیرے دل میں بھی ھے تیری بیٹی نہيں ھے یہ بس دکھاوا ھے دنیا کے سامنے کا ۔۔۔۔
اندر کا معاملہ میں جانتا ھوں کچھ اور ہی ھے ۔۔۔۔
گوپال چلا کر اٹھا بکواس بند کر اپنی اور دفع ھو جا یہاں سے ورنہ میں تجھے جان سے مار دونگا۔۔۔۔
بابو کی بات سن کر بختی کا دل چاھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ شرم کے مارے اسکی سانسیں رک گٸیں ۔۔۔۔
بس بس زیاہ چلا مت ورنہ ابھی ایک منٹ میں پورا محلہ جمع کر کے تیری اصلیت کھول دونگا۔۔۔۔
گوپال نے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ اپنی شرٹ کے بٹن بند کر کے بولا جار رہا ھوں ابھی لیکن کل تک بختی میرے حوالے نا کی تو یاد رکھنا تجھے تیری بیٹیوں کے قابل بھی نہيں چھوڑونگا۔۔۔۔۔
بابو کی دھمکی سن کر گوپال کے ھوش اڑ گۓ ۔۔۔۔
لاٶنج کے گیٹ سے وہ پھر پلٹا ۔۔۔
بس بہت کر لیۓ عیش تونے اب بختی میری ھے ۔۔۔
صرف چوبيس گھنٹے کا وقت ھے تیرے پاس ۔۔۔۔
لے آنا اسے کل میرے پاس۔۔۔ ورنہ مجھے جانتا ھے پھر بختی تو میں لے جاٶنگا لیکن تو خود کشی کرنے پر مجبور ھو جاۓ گا ۔۔۔ اور تیری بیوی اور بیٹیوں کو بختی بننے میں ذرا دیر نہيں لگنی ۔۔۔۔۔۔
_________
جی جی شاہ جی ابھی ابھی پہنچا ھوں ۔۔۔۔
آپکی امانت میری تحویل میں ہی ھے ۔۔۔
ھاھاھاھاھاھا۔۔۔۔ آپ بے فکر رھیں آج آپ تک پہنچ جاۓ گی ۔۔۔۔
پسند تو آپکو بہت آۓ گی کیونکہ وہ چیز ہی ایسی ھے ۔۔۔۔
ھا ھا ھا جی آپکے لیۓ ہی اسپیشل لایا ھوں ۔۔۔ پسند آ گٸ تو منہ مانگی قیمت لونگا پھرررر۔۔۔۔
آج تین دن بعد جازب کی آواز سب کر وہ دروازے پر آکر اسکی باتیں سننے لگی جو فون پر شاہ جی سے مخاطب تھا ۔۔۔
آپ بس شام تک انتظار کر لیں۔۔۔۔
فون کاٹ کر وہ نمل کے کمرے کیطرف بڑھا جیسے ہی دروازہ کھولا تو دروازے سے لگی نمل اسکے پیروں میں آگری ۔۔۔۔
اسے اپنے قدموں میں پڑا دیکھ کر مسکرایا نکل گٸ ساری اکڑ آگیا دماغ ٹھکانے ۔۔۔۔
وہ دروازہ پکڑ کر کھڑی ھوٸ کیونکہ اتنے بھاری شرارے میں خود کو سنبھال سنبھال کر تھک گٸ تھی ۔۔۔۔
شکر کرو دماغ ابھی تک ٹھکانے ہی ھے ورنہ قدموں میں میرے تم ھوتے ۔۔۔۔
جازب کا قہقہہ پورے کمرے میں گونجا۔۔۔۔
قدموں میں کون پڑا کس کے یہ منظر تو دیکھ لیا میں نے۔۔۔
خیر اپنا حلیہ درست کرو منہ ہاتھ دھو لو جانا ھے تم نے میرے ساتھ۔۔۔۔۔
وہ اسکی باتیں سن چکی تھی اپنے اندر کا خوف چھپا کر بولی ۔۔۔ کیوں کہاں لے کر جاٶ گے مجھے ۔۔۔
وہ اسکے قریب ھوا جہاں میرا دل چاھے گا۔۔۔۔۔
نہيں جانا مجھے کہیں بھی ۔۔۔۔
جازب غصے اور ھنسی کے ملے جلے احساس سے بولا ۔۔۔
میں نے کیا کہا ھے تم سے ۔۔۔
اپنی چھوڑو میری سنو ۔۔۔ وہ پوری ھمت جمع کر کے اسے دھمکانے کے انداز میں بولی اگر تم نے مجھے کچھ دیر میں میرے گھر روانہ نا کیا تو میں یہاں سے بھاگ جاٶنگی یا اپنی جان دے دونگی ۔۔۔۔
جازب ابرو اچکا کر بولا اچھاااااااا ۔۔۔۔ چلو دیکھتے ھیں کتنی ھمت ھے تم میں ۔۔۔
پہلے اپنا منہ تو دھو لو ایسے لگ رہا جیسے بلیوں نے چاٹا ھے ۔۔
___________
گوپال بختی کو لے کر کسی احمد کے گھر پہنچا ۔۔۔۔
بختی نے گھر کو چاروں طرف دیکھا کافی پرانا اور خستہ حال گھر تھا جہاں ایک ادھیڑ عمرعورت وھیل چیٸر پر بیٹھی اسے گھور رہی تھی ۔۔۔
احمد بھاٸ میری امانت ھے یہ میری بچی اسے تم کام پر کسی کے گھر لگوا دو ۔۔۔۔ اور یہ کچھ رقم بھی رکھ لو۔۔۔۔۔
گوپال کی بات سن کر بختی نے روتے ھوۓ اسے دیکھا۔۔
گوپال نے اسکے آنسو پونچھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
میری بچی مجھے معاف کر دے میں نے اب تک تیری حفاظت بڑی مشکل سے کی اور تونے بھی میرے گھر کسی سے ناگزرنے والی زندگی گزاری۔۔۔
اب میں تیری حفاظت نہيں کرسکتا تجھے اس ناپاک انسان سے بچانے کیلیۓ یہاں لایا ھوں۔۔۔
بختی ہچکیوں سے روپڑی ۔۔۔۔
نا رو میری بچی میں آتا رھونگا تجھ سے ملنے ۔۔۔۔
بختی انکے سینے سے لپٹ گٸ ۔۔۔۔
گوپال نے آنسو روک کر خود سے الگ کیا تو بختی نے اسکو واسکٹ سے پکڑ لیا ۔۔۔۔
ماما جی ایسے نا چھوڑیں مجھے آپکے ساۓ تلے جیتی رھی ھوں اب تک آپ سے جدا نہيں ھو سکتی ۔۔۔۔ میری ماں میرا باپ میری دھوپ میری چھاٶں میرا درد سب کچھ آپ ہی تو ھیں ۔۔۔۔
وہ بچوں کیطرح روتے ھوۓ بولی۔۔۔
ماما جی آپ اتنی جلدی ڈر گۓ بابو سے ۔۔۔۔
گوپال اس سے منہ چھپا کر بولا نہیں میں اُس سے نہيں ڈرتا تیری عزت سے ڈر رہا ھوں ۔۔۔۔ میری بچی سمجھ میں مجبور ھوں بہت ۔۔۔۔۔
نہیں ماما جی مجبور نہیں ھیں بلکہ بہت کمزور ھیں میرے نام سے اپنا دامن بچا رھے ھیں آپ بھی ۔۔۔ بن گۓ آپ بھی دنیا والے ۔۔۔۔۔
بختی کے گلے میں آنسو پھنس کر رہ گۓ وہ اپنا معصوم سا چہرہ ایک طرف جھکا کر بولی ۔۔۔ ماما جی میں آپکی اپنی بیٹی ھوتی تب بھی آپ ایسا کرتے مجھے چھوڑ دیتے لوگوں کے آسرے ۔۔۔۔۔۔
اسکا سوال سن کر گوپال کے سارے ضبط ٹوٹ گۓ
بختی تو مجھے دنیا میں سب سے پیاری ھے ۔۔۔۔
لیکن میری اپنی بیٹی نہيں یہ دنیا جانتی ھے بس اسی خوف نے مجھے کمزور اور بزدل بنایا ھے ۔۔۔ تو نہیں جانتی تجھے سنگسار کر دیں گے لوگ میرے ساتھ ۔۔۔۔
وہ معصومیت سے بولی ماما جی سنگسار کرنا کیا ھوتا ھے مجھے نہيں معلوم ۔۔۔۔
وہ اس سے نظریں نہيں ملا پا رھے تھے ۔۔۔
تجھے وقت سمجھا دیگا۔۔۔۔
نہيں ماما جی وقت کو تو شاید بہت وقت لگتا سمجھانے میں لیکن آپ نے خود پر وقت آتے ہی سمجھا دیا کہ بختی آپکو بس اتنی سی عزیز ھے کہ آپ نہيں چاہتے کہ کوٸ اور بختی جیسی بد بخت بنے ۔۔۔۔۔
ہاں ٹھیک کہا تونے بلکل ۔۔۔۔
بس اپنا خیال رکھنا میں جا رہا ھوں جلد آٶنگا تجھ سے ملنے ۔۔۔
ماما جی ۔۔۔ بختی کی دل چیرنے والی درد بھری آواز پر وہ پلٹا ۔۔
مجھے پتہ ھے اب آپ کبھی نہيں آٸیں گے مجھ سے ملنے ۔۔۔
یہ ھماری الوداعی ملاقات ھے۔۔۔۔۔
گوپال کو اپنا سانس رکتا ھوا محسوس ھوا ۔۔ اس سے پہلے کہ بختی کے سوال اسکی جان لے لیتے وہ وہاں سے تیز قدموں سے چل پڑا ۔۔۔۔
بختی اس بچے کیطرح بھاگی گوپال کے پیچھے جیسے کوٸ بچہ بلکتا ھوا ماں کے پیچھے بھاگتا ھے ۔۔۔۔ وہ گوپال کی ٹانگوں سے چپک گٸ ۔۔۔۔
گوپال نے اسے نظر انداز کیا اور خود کو چھڑاکر چلا گیا ۔۔۔۔
______
نمل بہت پریشان تھی کہ جازب اسے کہاں لے جانا چاہ رہا تھا؟ کیا واقعی وہ اسے شاہ جی کیلیۓ اٹھا کر لایا تھا ۔۔۔۔ اور اب اسے بیچ کر منہ مانگے پیسے وصول کریگا۔۔۔۔۔
نہیں نمل نہیں ۔۔۔ تیری غیرت یہ گوارا کیسے کریگی کہ تیری قیمت لگاۓ کوٸ ۔۔۔۔
نمل نے ھمت کر کے اپنی کمر کسی اور بکھرے ھوۓ بالوں کا کس کر جوڑا بنا کر اٹھی کمرے کا دروازہ لاک نہيں تھا وہ دبے قدموں باہر نکلی آس پاس جھانکا اسے کوٸ بھی نظر نا آیا اس نے مین گیٹ کیطرف اپنے قدم بڑھاۓ ۔۔۔۔
ایک دم کسی نے اسکاہاتھ پکڑا تو اچھل کر وہ پیچھے مڑی ۔۔۔۔
اسد تھا ۔۔۔ کہاں بھاگ رہی ھو۔۔۔۔
ہاتھ چھوڑو میرا ۔۔۔۔
یہاں سے بھاگنے کا کوٸ راستہ نہيں ۔۔۔۔
راستہ میں نکال لونگی تم۔چھوڑو مجھے ۔۔۔
یہاں سے سارے راستے موت کیطرف جاتے ھیں آٸ سمجھ ٹک کر بیٹھو ۔۔۔۔
وہ اسے ہاتھ سے گھسیٹ کر اندر لے جانے لگا۔۔۔
نمل بھاگنے کا یہ موقعہ گنوانا نہيں چاہتی تھی ۔۔۔۔ اسکی نظر ٹیبل پر پڑے کانچ کے جگ پر پڑی ۔۔۔ اسد کے ہاتھ پر چاک کاٹ کر اس نے ہاتھ چھڑایا اور دوسرے ہی پل کانچ کا جگ اسکے سر پر دے مارا۔۔۔۔
اسد کے سر سے پانی کیطرح خون بہنے لگا۔۔۔
اسد کو پیچھے مڑ کر دیکھا اور آگے سے بے خبر تیزی سے بھاگتے ھوۓ وہ کسی سے اتنی بری طرح ٹکراٸ کہ اسکا سر چکرا کر رہ گیا وہ پیچھے کو بہت برے طریقے سے گرتی ۔۔۔۔ لیکن جازب کی بانہوں نے اسے تھام لیا ۔۔۔۔
_________
عامر کا غصہ قابو سے باہر تھا
یار سمجھتی کیا ھے یہ خود کو خون دیکھ اسکا ۔۔۔ میرا بس نہيں چل رہا جی چاھ رہا ھے خون پی جاٶں اسکا میں ۔۔۔۔
جازب نے بڑی مشکل سے اسے روکا چھوڑ دے یار ۔۔۔۔ جا رہی ھے وہ یہاں سے آج ۔۔۔۔
لے جا اسکو جتنی جلدی ھو سکے ورنہ میں قسم سے جان سے ماردونگا اسکو اب ۔۔۔۔۔
نمل ڈری سہمی انکی باتیں سن رہی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب انکے ہاتھوں اسکی خیر نہيں وہ اپنی خیر کی دعاٸیں مانگنے لگی
یااللہ اب تک تونے مجھے ان سے محفوظ رکھا آگے بھی میری لاج رکھنا اے میرٕے رب میں خود کو تیرے سپرد کرتی ھوں میری حفاظت کرنا ۔۔۔۔۔
جازب شام ڈھلتے ہی اسکے کمرے میں آیا ۔۔۔
اٹھو ۔۔۔۔
کیوں ؟؟ وہ ڈھیٹوں کیطرح اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی ۔۔۔۔
جازب دانت پیستے ھوۓ بولا ۔۔۔ زیادہ آنکھیں مت دکھاٶ مجھے ۔۔۔۔
کیوں نا دکھاٶں ؟ نکال دوگے تم ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ نکالوں گا نہيں ۔۔۔ چووووم لونگا۔۔۔
نمل کی پلکیں شرم سے جھک گٸیں۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں شرارت لیۓ اسکی طرف جھک کر بڑی سریلی آواز میں گنگنایا ۔۔۔
جھکی جھکی نظر تیری کمال کر گٸ ۔۔۔۔
نمل نے پلکیں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔
اٹھی جو ایک بار تو بے حال کر گٸ ۔۔۔۔۔
نمل اسکے شاعرانہ انداز پر تلملا اٹھی ۔۔۔۔
بکواس بند کرو اپنی ۔۔۔ اور کان کھول کے سن لو میں یہاں سے اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہيں جاٶنگی ۔۔۔۔
نا نا میری جان غصہ نہیں۔۔۔۔
جان نہيں میں تم جیسے گھٹیا انسان کی ۔۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا منہ بند کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔
وہ نیچے فرش پر بیٹھ گٸ نہيں جانا مجھے تم جیسے وحشی آوارہ کے ساتھ ۔۔۔۔
جازب گہری سانس لے کر اپنا غصہ دبا کر بولا ۔۔۔
مجھے نا سننے کی عادت نہيں یہ تم ھو جسکو بخشا ھوا میں نے تمھاری جگہ کوٸ اور ھوتا تو زمین میں گاڑ دیتا اسے میں ۔۔۔۔
تو گاڑ دو مجھے بھی وہ بلند آواز میں بولی ۔۔۔۔
دیکھو آخری بار کہہ رہا ھوں ۔۔۔۔
تم آخری بار بولو یا پہلی بار لیکن میں بار بار کہونگی نہيں ۔۔۔ نہيں ۔۔۔نہيں ۔۔۔۔
جازب کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی وہ۔۔۔ جازب نےغصے سے اسے گود میں اٹھایا اور گاڑی کی سیٹ پر جا پٹخا۔۔۔۔
اب جتنی بک بک کرنی ھے کرتی رہنا۔۔۔
جازب نے سیٹ بیلٹ کے ساتھ اسے باندھ دیا ساتھ میں اسکے ہاتھ بھی ۔۔۔۔۔
اور اونچی آواز میں گانے چلا کرخود گاڑی ڈراٸیو کرنے لگا ۔۔۔۔
نمل کے شور سے اسکے کان پر جوں تک نا رینگی اسکی فریاد اورالتجا میوزک کی نذر ھوتا رہا ۔۔۔۔
جازب کی گاڑی رات کے پہر بلکل کسی سنسان پہاڑی علاقے میں رکی ۔۔۔
وہ نمل کے منہ پر ٹیپ لگا کر گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔ آتا ھوں میں کچھ دیر میں۔۔۔۔
نمل اسے ایک بیگ اٹھاۓ دور تک جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔ جازب اسکی نظروں سے اوجھل ھوا تو اس نے جلدی سے خود کو کھولا اور گاڑی سے اتری۔۔۔۔۔
وہ سمندر کا کنارہ تھا دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نا تھا سوا ریت اور سمندر کے شور کے ۔۔۔۔
نمل پہاڑوں کیطرف بھاگی گرتے سنبھلتے وہ کافی دور جا چکی تھی پہاڑوں پر چڑھتے چڑھتے اسکے ہاتھ پاٶں زخمی ھو گۓ۔۔۔۔
وہاں موجود سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھتے ھوۓ اسے باٸیں طرف کچی پکی آبادی نظر آٸ ۔۔۔ وہ خوشی سے پھولی نہيں سماٸ اور جلدی سے پہاڑ کے باٸیں طرف جانے لگی ۔۔۔
وہ تھک کر ہانپتی کانپتی سانسوں کے ساتھ پل بھر بیٹھی ہی تھی کہ کسی کے مظبوط آہنی ہاتھوں نے اسے گھیر لیا ۔۔۔
اسے اس بات کا علم نہيں تھا کہ کوٸ دوسرا شکاری بھی اسکی تاک لگاۓ اس سے کچھ فاصلے پر چھپا بیٹھا ھے ۔۔۔۔
جاری ھے ۔۔۔۔

https://pakeeza-ishq.blogspot.com/2021/06/bd-bhakat-episode-5.html

Post a Comment

Previous Post Next Post