قسط نمبر : 2
حافظ صاحب کا رکشہ گھر کے سامنے رکا وہ سامان نکال کر دروازہ بجانے لگے تو وہ اپنے آپ کھل گیا وہ تھوڑا حیرت سے اندر آۓ ۔۔۔۔
نمل بیٹا دروازہ کیوں کھلاچھوڑ رکھا ھے وہ کرسی پر بیٹھ کر بولے ۔۔۔ کوٸ جواب انہیں موصول نہيں ھوا انہوں نے پھر آواز لگاٸ ۔۔۔
نمل بیٹا ۔۔۔۔ جواب میں مکمل خاموشی تھی وہ گھبرا کر اٹھے اور تیز تیز قدموں سے چلتے ھوۓکمرے میں داخل ھوۓ تو اندر کا منظر دیکھ کر وہ وہیں دروازے پر گر گۓ ۔۔۔
کمرے میں زیورات کا باکس خالی زمین پر پھینکے ھوۓ تھے بختی رسیوں سے باندھی ایک طرف بے ھوش پڑی تھی اور نمل کا نام و نشان نہيں تھا ۔۔۔۔۔
صحن میں دیوی کی آواز گونجی وہ بختی کو کوستی ھوٸ اندر داخل ھوٸ ۔۔۔۔
ارے او منہوس کب سے تجھے بلا رہی ھوں گھر چل ذرا تیری خبر لیتی ھوں میں دوسروں کی ھمدردی میں ۔۔۔۔۔
حافظ صاحب کو کمرے کے دروازے میں بے سدھ پڑا دیکھ کر اسکی زبان وہیں بند ھو گٸ۔۔۔
کیا ھو گیا آپکو ایسے کیوں گرے پڑے ھیں آپ۔۔۔
حافظ صاحب پر دیوی کی بلند آواز اثر نا کی اس نے زور زور سے نمل اور بختی کو آواز لگاٸ ۔۔۔ پر جواب میں کوٸ نا بولا تو اندر کمرے میں جھانکنے پر وہ ہکا بکا رہ گٸ ۔۔۔
یہ کیا ھو گیا حافظ صاحب آپکی بیٹی بھاگ گٸ سارا زیور لے کر ۔۔۔۔ اسکےالفاظ تیر کیطرح حافظ صاحب کے دل پر جا لگے ۔۔۔
وہ ایک دم دیوی کے سامنے کھڑے ھوۓ خدا کا واسطہ ھے میری معصوم سی بچی پر الزام نا لگاٸیں انکے آنسو آنکھوں کے بند توڑ کر انکے گالوں پر گرنے لگے ۔۔۔
دیوی کا پہلے ہی ان باپ بیٹی سے بختی کیوجہ سے خدا واسطے کا بیر تھا اسے اپنے اندر کی بھڑاس باہر نکالنے کا موقع مل گیا وہ کسی ناگن کیطرح ناک پھلا کربولی آپکی بیٹی کی ذمہ دار نہيں میں مجھے بتاٸیں بختی کہاں ھے؟؟
حافظ صاحب کے تو ھوش ہی گم تھے بختی کا سن کر وہ کمرے میں اسکی طرف لپکے دیوی بھی اندر آٸ اور بختی کو بے ھوش دیکھ کر اس نے باہر گلی کے دروازے پر شور مچانا شروع کر دیا ۔۔۔۔
ارے لوگو جلدی آٶ ۔۔۔
حافظ صاحب لٹ گۓ لے اڑی انکی بیٹی سب کچھ ساتھ میں میری بختی کو بھی ماردیا ہاۓ لٹ گٸ میں برباد ھوگٸ وہ ماتھا پیٹ پیٹ کر چلانے لگی ۔۔۔
حافظ صاحب بختی کو ھوش میں لانے لگے ۔۔۔ دیوی کے شورشرابے نے پورا محلہ جمع کر لیا۔۔۔
سبھی محلے والے تیزی سے گھروں سےنکل کر نمل کے گھر پہنچ گۓ ۔۔۔
سب کی زبان پر ہزار سوال تھے لیکن بختی کے ھوش میں آنے کا انتظار کر رھے تھے ۔۔۔
بختی جیسے ہی ھوش میں آٸ تو اس نے چلا چلا کر رونا شروع کر دیا بابا نننننمل۔۔۔۔ نمل کہاں ھے ؟
حافظ صاحب کی رہی سہی ھمت بھی جواب دے گٸ بیٹا تم بتاٶ کیا ھوا تھا ؟ کون آیا تھا ؟ کہاں ھے نمل ؟
بختی خوف سے ہانپتی کانپتی سارا قصہ سنانے لگی پھر بلند آواز سے روتے ھوۓ بولی بابا وہ مار دیں گے نمل کو بچا لیں ۔۔۔۔۔
بختی کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی زاروقطار رونے لگے کچھ لوگوں نے حوصلہ دیا کچھ نے پولیس کا مشورہ دیا اور کچھ نے دبے دبے الفاظ میں اسکو عاشقی کا معاملہ قرار دیا تو کسی نے کانوں کو ہاتھ لگا کر فرار کا ۔۔۔۔
بیک وقت چند منٹوں میں لوگوں نے انکو آسمان سے زمیں پر لا پٹخا ۔۔۔۔
دیوی بختی کو گھسیٹ کر لے جاتے ھوۓ بھی اپنا زہر اگلی ۔۔
توبہ توبہ اتنی پاک بی بی بنی پھرتی تھی لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ھوۓ ذرا شرم نہيں آتی بڑے مُلا بنتے تھے اپنی بیٹی سنبھالی نا گٸ نام بڑا اور درشن چھوٹے ۔۔۔۔۔
بختی روتے ھوۓ نمل نمل کرتی رہی ۔۔۔۔
ایک ایک کر سب اپنے من گھڑت اور بے بنیاد الزامات اور شکوک کو ھمدردی کے سکوں میں لپیٹ کر حافظ صاحب کی گود میں ڈالتے گۓ ۔۔۔
سب کی باتیں سن کر وہ انکے آگے ہاتھ جوڑ کر روۓ خدا کا واسطہ ھے میری بچی پر الزامات نا لگاٸیں اگر میرا درد سمجھ نہيں سکتے تو اسے بڑھاوا نا دیں میری بیٹی پر الزامات کیلیۓ انگلیاں بہت جلد اٹھا لیں آپ سب نے لیکن اسکی خیریت کی دعا کیلیۓ آپ کے ہاتھ نہيں اٹھے خدارا میری عزت کا جنازہ نا نکالیں ۔۔
کچھ تو انکی بات سن کر شرمندگی سے چلے گۓ لیکن کچھ محلے والے رکے اور انکے کندھے پر ہاتھ رکھا اللہ سے اچھی امید رکھیں آپکی بیٹی ان ظالموں کے شر سے محفوظ رھے ۔۔۔۔
آپ پوليس میں رپورٹ کر دیں تو بہتر ھے ھو سکتا ھے پولیس ان تک پہنچ جاۓ أور آپکو بچی مل جاۓ ۔۔۔۔
ھم آپکے ساتھ ھیں آپکی بچی ھماری بھی بچی ھے اور آپکی شرافت سے پورا محلہ واقف ھے آپ حوصلہ رکھیں ھم آپکے ساتھ ھیں ۔۔۔۔
ہر کوٸ اپنی راۓ اور مشورے دینے لگا وہ سب کی سن کر بس ہاں میں سر ہلاتے رھے کچھ دیر بعد وہ سب بھی چلے گۓ ۔۔۔۔
سب کے جاتے ہی وہ نمل کے کمرے میں گۓ اور ان خالی زیورات کے باکس دیکھے پھر اسکا دوپٹہ سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑے پل بھر میں ہی قیامت ٹوٹ پڑی تھی ان پر انسان کو آنے والے وقت کا ذرا بھی اندازہ نہيں ھوتا کہ خوشیاں کیسے ماتم میں بدل جاتی ھیں خدا یہ وقت کسی ماں باپ پر نالاۓ جب انکے لخت جگر پر کوٸ اسطرح وار کرے کہ وہ ناجینے کے قابل رھیں نا مرنے کے ۔۔۔۔
ہزاروں واقعات ھم روز سنتے ھیں چھوٹی چھوٹی معصوم سی بچیاں بھی ایسے بھوکے بھیڑیوں کا شکار ھو جاتی ھیں انکو ذرا ترس نہيں آتا کہ وہ کسطرح معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر جاتے ھیں ۔۔۔۔
ایک وقت تھا جب بیٹی پیدا ھونے پر انہیں زندہ دفنا دیا جاتا تھا اور ایک آج کادور ھے جہاں بیٹیوں کو دفنانے سے پہلے نوچا اور لوٹا جاتا ھے اپنی وحشت کا سامان معصوم سی بچیوں کوبنا کر انکی آبرو کو معصومیت کو پامال کیا جاتا ھے ۔۔۔
پھر مار کر کسی جانور کی طرح یا تو کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ھے یا کسی گٹر نالے سے انکی لعش ملتی ھے کیسے جیتے ھونگے وہ ماں باپ جنکے لخت جگر اسطرح نوچ کر لوٹ لیۓ جاٸیں؟؟؟
حافظ صاحب کے دل میں بھی یہی خوف تھا کہ انکی بیٹی کس حال میں ھوگی ان وحشی درندوں کے ہاتھوں ؟
میری بچی میری نمل ۔۔۔۔
کہاں تلاش کروں تجھے کہاں؟ نا تو راستہ بھٹکی ھے نا گم ھوٸ ھے کہ میں تجھے تلاش کروں گلی گلی بھاگوں تیرے پیچھے ۔۔۔ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر روتے رھے ؟؟؟
گوپال کو علم ھوا تو وہ دوڑتا ھوا آیا اور حافظ صاحب کو بے بسی کی تصویر بنے دیکھ کر وہ خود بھی برداشت نا کر سکا ۔۔۔۔
حافظ صاحب کی حالت نا قابل دید تھی وہ جلدی سے پانی لایا انکو پلانے کی کوشش کی لیکن انکے حلق سے ایک گھونٹ نیچے نا اترا ۔۔۔۔
گوپال نے انکو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔۔
گوپال کچھ دیر انکے پاس خاموشی سے بیٹھا رہا پھر حافظ سے بولا آپ نے انکے سسرال اطلاع کی ؟
کل شام نمل بیٹی کا نکاح ھے
حافظ صاحب رو رو کر نڈھال ھو گۓ تھے ۔۔۔
کیا خبر دوں میں بیٹی کے سسرال میں؟؟؟
یہ کہ آپکے دیۓ ھوۓ تمام زیورات کے ساتھ ساتھ میری بیٹی کو بھی ڈاکو اٹھا کر لے گۓ؟؟ کون یقین کرے گا اس بات پر۔۔۔۔
گوپال بھی اداسی بھرے لہجے میں بولا کہہ تو آپ ٹھیک رھے ھیں لیکن انکو خبر کرنی بھی ضروری ھے ورنہ کل تک مذید بدنامی ھو جاۓ گی ۔۔۔۔
گوپال کی بات پر وہ بولے ۔۔۔ مجھے کسی بھی بدنامی کی پرواہ نہيں سوا اپنی بچی کی آبرو اور خیریت کہ ۔۔۔۔۔
خدا سلامت رکھے میری بچی کو۔۔۔
انکے آنسو بھی آنے والے وقت سے خوفزدہ ھو کر خشک ھو گۓ اب وہ سوکھی آنکھوں سے رونے لگے۔۔۔۔
_____
جازب تم اس آفت کو ساتھ تو لے آۓ ھو اسے رکھو گے کہاں ؟
جازب کے ایک ساتھی اسد گاڑی چلاتے ھوۓ بولا۔۔۔۔۔
جازب اپنے مخصوص انداز میں سگریٹ کے کش لے کر بولا یار بلوچستان والے اڈے پر لے لو گاڑی ۔۔۔۔
کیااااااا۔۔۔۔ اسد نے بریک لگاٸ تیرا دماغ درست ھے ؟؟ وہاں شاہ جی آگیا تو جانتا ھے نا کیا ھوگا ؟
جازب بے فکری سے انگڑاٸ لے کر بولا وہ میرا مسٸلہ ھے یار میں ھینڈل کر لونگا تو گاڑی چلا ۔۔۔
اسد گاڑی چلا کر بولا۔۔
جازب تو اس لڑکی کو ساتھ لایا کیوں؟؟
پتہ نہيں۔۔۔ جازب لاپرواٸ سے بولا۔۔۔
دیکھ یار ھمارے گھر بھی بہن بیٹیاں ھیں اچھا نہيں کیا تو نے اسے اٹھا کر۔۔ نا جانے اسکے گھر والوں کا کیا حال ھوگا۔۔۔
جازب اسد کے سر پر چپت لگا کر بولا زیادہ جذباتی نا ھو ۔۔۔۔
بات جذبات کی نہيں غلطی کی ھے ۔۔ ایک تو ھم نے پہلی بار چوری کی کسی کے گھر میں اوپر سے تونے اس لڑکی والا پنگا لے لیا اس سےپہلے تو ایسا دورہ تجھے کبھی نہيں پڑا کہ تونے کسی لڑکی کی پرواہ بھی کی ھو۔۔۔۔
دوسرا ساتھی (عامر)بولا چھوڑ یاررررر۔۔۔ آج کا دن بہت برا رہا ۔۔۔۔
جازب اسکو بغل میں دبا کر بولا دن کو برا نا بول یار وہ نمل کی طرف دیکھنے لگا بھلا ھو لالا کے بندوں کا وہ نا آتے نا یہ آتی ۔۔۔۔
عامر اسے پیچھے دھکیل کر بولا بال بال بچے آج ھم ورنہ جیسے لالا کے آدمی پیچھے لگے تھے ھم تینوں ںسے کوٸ ایک تو ضرور اوپر جاتااور لوگوں کی نظر میں بھی آجاتے شکر کر جان بچ گٸ ۔۔۔۔
اسد پھر بولا ان سے تو جان چھڑالی لیکن شاہ جی کو علم ھو گیا اگر ھماری چوری کا یا اس لڑکی کے اغوا کا تو نہيں بچیں گے ھم ۔۔۔ میری مان لے دیکھ اسے واپس چھوڑ دیتے ھیں۔۔۔۔
نہيں چھوڑ سکتا اسکو میں بحث مت کر مجھ سے جازب سختی سے بولا
اسد بھی اسکی ٹون میں بولا کیوں کرناکیا ھے تونے اسکا پسند آگٸ ھے کیا ۔۔
جازب قہقہہ لگا کر بولا تو نہيں سمجھے گا یار ۔۔۔
اسد نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ھو ۔۔
جازب نے سگریٹ باہر پھینک کر اسکا منہ سامنے کیطرف کیا ۔۔۔ اوۓ روڈ ادھر ھے سامنے دیکھ کہیں ٹھوک مت دینا ۔۔۔ اور اب منہ بھی بند رکھ ورنہ تجھے بھی لمبی نیند سلا دونگا اس آفت کیطرح وہ نمل کیطرف اشارہ کر کے بولا ۔۔۔۔
اسد نے خاموشی سے سگریٹ پیتے ھوۓ گاڑی کی اسپیڈ بڑھا دی
_____
حافظ صاحب باجماعت نماز پڑھتے تھے نا وہ عصر کی نماز میں مسجد آۓ نا مغرب کی کچھ پڑوسی انکے گھر گۓ توحافظ صاحب ھوش سے بیگانے زمین پر پڑے ھوۓ تھے وہ انکو ھوسپٹل لے کر پہنچے تو علم ھوا کہ انکو شدید دل کا دورہ پڑا ھے ۔۔۔
انکے موباٸل سے کچھ نمبر تلاش کرنے پر انکی آخری کال پر کال کی گٸ جو انکے ھونے والے داماد ولی کی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر میں ولی اپنی والدہ کے ساتھ ھوسپٹل میں موجود تھا اور لوگوں کی زبانی کلامی باتیں سن کر وہ پریشان ھو گیا ولی کی والدہ سے بھی برداشت نا ھوا انکی طبیعت بگڑ گٸ کہ کل نکاح تھا وہ کیا منہ دکھاٸیں گی خاندان والوں کو کہ کیا ھوا کہاں گٸ انکی بہو؟ کیوں ھوا اچانک اٹیک ولی کے سسر کو؟ ایسے بہت سے سوالوں اور نظروں کا سامنا انکو بھی کرنا تھا ساتھ میں لاکھوں کے قیمتی زیورات کا دکھ الگ تھا ۔۔۔۔۔
وہ بیٹے کو دیکھ کر بولی کیا ولی یہ سب۔۔۔۔۔ کیا کہیں گے ھم خاندان والوں کو ؟ کتنی بدنامی ھوگی ھماری وہ روپڑی ۔۔۔۔
پہلے تو مجھے یقین نہيں آرہا میں لوگوں کو کیسے یقین دلاٶنگی ؟ نمل نے تو کسی پر بھی رحم نہيں کیا ۔۔۔۔۔
ولی انکو سنبھال کر بولا امی سب کچھ ٹھیک ھو جاۓ گا آپ حوصلہ کریں ۔۔۔
کیسے حوصلہ کروں بیٹا یہ کوٸ معمولی بات نہيں پورا خاندان ھنسے گا ھم پر لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے کس کس کو جواب دوگے تم اور میں ۔۔۔۔۔
امی لوگ گۓ بھاڑ میں آپ دعا کریں حافظ انکل کو کچھ نا ھو اور نمل بھی خیریت سے واپس آجاۓ ۔۔۔۔
وہ سر ہاتھوں میں پکڑ کر بولی ولی بیٹا وہ آ بھی گٸ واپس تو قابل قبول کہاں ھوگی ۔۔۔۔
ولی انکو چپ کروانے لگا بس کر دیں امی یہ وقت ان باتوں کا نہيں ۔۔۔۔
وہ فکر مند لہجے میں بولی بیٹا تجھے نہيں معلوم اب آنے والا وقت صرف باتيں سننے کا ہی ھے ۔۔۔۔
_____
سرخ شرارے میں بکھرے بالوں کے ساتھ ھوش کی دنیا سے بے خبر وہ جازب کے ھوش اڑا رہی تھی ۔۔۔ لیکن اسے دیکھتے دیکھتے اچانک اسکا تھپڑ اور اسکا منہ پر تھوکنا یاد آیا تو جازب کے جذبات غصے میں بدلنے لگے لیکن اسکے غصے پر دلہن کے لباس میں موجود قیامت ڈھاتی نمل کا سراپا حاوی ھو رہا تھا ۔۔۔
وہ اپنے من سے گھبرایا اور اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کھولی تو تازہ ھواکے جھونکے نے اسے چھوا کچھ دیر وہ کھڑکی میں کھڑا رہا پھر نمل کے قریب آیا جیسے ہی نمل پر جھکا تو اسے کچھ ھوش آیا پہلے تو وہ کچھ نا سمجھی اور خود پر جھکے شخص کو دیکھنے لگی پھر پوری آنکھیں کھولنے اور سب کچھ یاد آنے پر اس نے غور سے جازب کو دیکھا تو دھکا دے کر اسے خود سے پیچھے کرنے کی کوشش کی لیکن وہ جازب تھا اس نے فوراً اسے قابو کیا ۔۔۔
نمل اسکے اتنے قریب تھی کہ وہ اسکی تیزھوتی دھڑکنوں کی دھک دھک با آسانی سن رہا تھا ۔۔۔
نمل خوفزدہ ھو کر خود کو چھڑانے لگی پر ناکام جسطرح جازب اسے قابو کرکے اس پر جھکا ھوا تھا وہ ہل بھی نہيں پا رہی تھی ۔۔۔ وہ اسکے دونوں ہاتھ سختی سے دبوچ کر بولا اسی ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا نا ۔۔۔ پھر دوسرے ہاتھ سے اسکا منہ جبڑوں سے پکڑ کر بولا اور تھوک اسی منہ سے پھینکا تھا ۔۔۔۔
نمل رو پڑی اور کپکپاتی آواز میں بولی میں پاٶں پڑ کر معافی مانگتی ھوں تم سے معاف کر دو ۔۔۔۔
اسکی بڑی بڑی گولڈن آنکهوں سے ٹپکتے آنسو ایک ایک کر کے جازب کے دل پر گرنے لگے اور پل بھر وہ گم سا ھو گیا اسکے بھیگے نینوں اور بھیگی پلکوں میں ۔۔۔۔
وہ پھر گڑگڑا کر بولی خدا کا واسطہ ھے چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔
جازب نے اس پر گرفت ڈھیلی کی تو وہ فوراً خود کو چھڑا کر پیچھے ہٹی ۔۔۔
وہ ایک ٹک اسے گھورتے ھوۓ بولا بس اتنی سی ھمت تھی تم میں ۔۔۔ اگر مرد کا مقابلہ نہيں کر سکتی تو پھولن دیوی بھی مت بنا کرو ۔۔۔۔
مرد کو تھپڑمارنے کا انجام جانتی ھو نا وہ پھر اسکے قریب ھوا ۔۔۔ خوف کے ساتھ ساتھ نمل کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ بھی تھا ۔۔۔۔ وہ فوراً چلا کر بولی دیکھو میرے پاس مت آٶ ورنہ۔۔۔۔۔
اسکے دھمکانے پر جازب زور زور سے ھنسا اور دل ہی دل میں بڑبڑایا رسی جل گٸ پر بل نہيں گیا ۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔۔ کیا کروگی تم پھر سے تھپڑ ماروگی اور تھوکو گی۔۔۔ نمل نے گھبرا کر نا کے بجاۓ ہاں میں سرہلایا۔۔۔ تو جازب کو غصہ آگیا اب کی بار یہ بات بھی ذھن میں رکھنا کہیں ایسا نا ھو اپنا ہی تھوکا چاٹنا پڑ جاۓ ۔۔۔۔ نمل باآواز رو پڑی ۔۔۔
اتنے میں دروازے پر عامر دستک دےکر جھٹ سے اندر آیا اوۓ مجنوں کی اولاد باہر شاہ جی آیا ھے۔۔۔
کر اسکا کوٸ بندوبست اب۔۔۔
جازب جلدی سے اٹھا اور ادھر ادھر کچھ ڈھونڈنے لگا۔۔۔
نمل نے پہلے تو اسے دیکھا پھر آہستہ سے بیڈ سے اتری اور شراراہ سنبھال کر باہر بھاگ گٸ ۔۔۔۔۔۔
جاری ھے ۔۔۔۔۔
از قلم : عرشی نور
https://pakeeza-ishq.blogspot.com/2021/06/bd-bhakhat-episode-3.html
Post a Comment