Bd Bhakht Ep1

 




سچی کہانی پر مبنی ناول : بد بخت  


قسط نمبر : 1  


گھر میں داخل ھوتے ہی اس نے غصے سے سبزی کے شاپرز ٹیبل پر پٹخے اور چادر اتار کر اپنی پھولتی سانسوں میں بڑبڑاٸ ۔۔۔۔۔

سمجھتے کیا ھیں خود کو یہ بے غیرت جہاں بھر کے۔۔۔ منہ اٹھاۓ بازاروں میں دندناتے پھرتے ھیں اور دوسروں کی بہن بیٹیوں کو اپنی جاگیر سمجھ لیتے ھیں ۔۔۔۔

غصے سے اسکا چہرہ لال ھو رھا تھا ابھی وہ پھولتی سانسیں سنبھال ہی نہيں پاٸ تھی کہ پیچھے سے اسکے کندھوں پر کسی نے ہاتھ رکھے تو وہ ایک دم چونک کے پلٹی۔۔۔ 

تمممممم ۔۔۔۔۔ اندر کیسے آٸ ؟ نمل کے غصیلے لہجے اور بلند آواز سے بختی سہم گٸ ۔۔۔

وہ سہمے ھوۓ بولی ۔۔۔ دددددروازہ کھلا تھا مممم میں اسلیۓ اندر آآآگٸ لیکن تجھے کیا ھواااا؟  

نمل سر جھٹک کر بولی کچھ نہيں ۔۔۔۔

بختی اسکی حالت دیکھ کر سمجھ گٸ کچھ ھوا ضرور ھے تبھی جھٹ سے ٹھنڈا پانی لاکر اسکے سامنے رکھا اور خود خاموشی سےاسکے سامنے بیٹھ گٸ ۔۔۔۔۔

نمل یک دم اٹھی اور رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھ دھونے لگی ۔۔۔۔۔

 بختی سمجھ گٸ کہ آج پھر کسی کی شامت آٸ ھے ۔۔۔

ہاتھ دھو کر غٹاغٹ اس نے دو گلاس پانی کے پیۓ ۔۔۔۔ 

بتاٶ تو سہی ھوا کیا ھے بختی نے سوال کیا۔۔۔

کچھ خاص نہيں وہی ھوا جو میرے باہر نکلنے اور کسی کی میرے ساتھ بدتمیزی کرنے پر ھمیشہ ھوتا ھے ۔۔۔

بختی مسکراٸ آج کس بے چارے کی شامت آگٸ تھی ۔۔۔

کیا کہا تم نے بیچارہ ؟ تیرےلیۓ سب بیچارے ھیں نا اور بدمعاش صرف ایک میں ۔۔

بختی نے مسکراتے ھوۓ ہاں میں سر ہلایا تو پاس پڑے آلو اسے سر پر کھانے پڑ گۓ ۔۔۔

وہ بھاگی اندر کیطرف تو نمل بھی اسکے پیچھے بھاگی وہ بیچارہ تو بچ گیا لیکن تو نہيں بچے گی آج میرے ہاتھوں ۔۔۔۔

یار میرے پوچھنے پر تم نے آلوٶ کی برسات کر دی مجھ پر اس بیچارے کے چھونے پر کیا کیا ھوگا اس پر کونسی بارش ھوٸ چماٹوں کی یا ۔۔۔۔۔۔۔

نمل بھی ھنس پڑی اسکے ساتھ اور دونوں بیڈ پر لیٹ گٸیں ۔۔۔

نمل اتنی ہمت کہاں سے لاتی ھے؟ تجھے ڈر نہيں لگتا ذرا سا بھی کسی نے تجھے پہچان کر بڑا نقصان پہچانے کی کوشش کی توووو مت کیا کرو اسطرح کسی دن کچھ برا تیرے ساتھ ھو گیا توووو ؟

کیا توووو؟؟ نمل نے گھور کر پوچھا 

بختی کسی پرانے زمانے کی فکرمند ھوتی دادی اماں والے اسٹاٸل میں بولی ۔۔۔

دیکھو نمل مرد پر ہاتھ اٹھانا وہ بھی سرِ بازار اچھا نہيں کوٸ اس ذلت کا بدلہ تم سے بہت برے طریقے سے بھی لے سکتا ھے ۔۔۔۔

نمل اسکے انداز پر ھنسی پھر بولی میں تیری طرح کمزور یا ڈرپوک نہيں کہ کسی کی زیادتی پر اسے منہ توڑ جواب نا دوں ۔۔

اور ایک بات بتا اگر تجھے کوٸ غیر مرد چھووے تو کیا کریگی؟ چھونے دوگی اسکو؟ کچھ نہيں کہوگی ؟ 

اسکے سوال پر بختی ڈر کر بولی نہيں ۔۔۔ بس اپنی جگہ تبدیل کر لونگی ۔۔۔۔

نمل اٹھ کر بیٹھ گٸ ۔۔۔۔

کیوں اتنی بزدل ھے تو بختی ایسا کیوں کرے گی ؟ تجھے تو اس شخص کا منہ توڑ دینا چاھیۓ تیرے جیسی ڈرپوک لڑکیاں ہی ایسے بے شرم مردوں کو شہہ دیتی ھیں۔۔۔۔

ایسے مردوں سے ڈرنا نہیں چاھیۓ بلکہ انکو ڈرانا چاھیۓ جو بازاروں میں اپنی گندی ھوس کا نشانہ بناتے ھیں دوسروں کی بہن بیٹیوں کو آج جو ہاتھ تمھیں چھونے کے لیۓ بڑھے اسے کاٹ پھینکو تاکہ کل وہ کسی اور کی عزت کو روندنے کیلیۓ نا بڑھ سکیں ۔۔۔۔

بختی اسکی طرف دیکھ کر بے بسی سے بولی تو یہ سب کر سکتی ھے ۔۔۔

نمل غصے سے بولی کیوں تو کیوں نہيں کر سکتی تیرے ھاتھ ٹوٹے ھوۓ ھیں ۔۔۔

وہ سر جھکا کر بولی نہيں میں نہيں کر سکتی نمل۔۔۔ تیرے پیچھے ایک مضبوط ساٸبان ھے جو ہر جگہ ساۓ کیطرح تیرے ساتھ رہتا ھے تیری حفاظت کرتا ھے جسکا دستِ شفقت تیری ہمت بڑھاتا ھے ۔۔۔جبکہ میں ۔۔۔۔ یہاں بختی کے الفاظ اسکے لہجے کی طرح ٹوٹنے لگے میں بے ساٸبان ھوں میری حفاظت کو نا کوٸ آگے ھے میرے نا پیچھے جسکی طرف بڑھتے ھوۓ ہاتھ روکے نہيں جا سکتے البتہ میرے ہاتھ توڑے جا سکتے ھیں وہ اپنی ہتھیلیاں پھیلا کر انہیں تکنے لگی اور ٹپ ٹپ اسکے آنسو اسکی ہتھیلیوں پر ایسے گرنے لگے جیسے قیمتی موتی بے مول ھو کر گرے ھوں ۔۔۔۔ 

 نہل سے اسکا درد برداشت نا ھوا اس نے اسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ 

نا کیا کر ایسی باتیں کیا میں تیری کچھ نہيں لگتی ؟؟ 

بختی بے یقین سی ھو کر پورے یقین سے بولی تجھے ہی پا کر تو جینے لگی ھوں ورنہ اس ادھ ننگے وجود کی بھوک پیاس مجھے میرے ہی ہاتھوں کب کی مار چکی ھوتی ۔۔۔۔

نمل نے اسکے آنسو صاف کیۓ مایوسی کی باتیں نا کیا کر اللہ پاک کی ذات بہت رحیم ھے اس نے تجھے پیدا کیا ھے نا وہی تیری زندگی کا مالک ھے وہی تیرا محافظ ھے وہ کبھی کسی کا برا نہيں چاہتا یہ تو ھم ھیں مایوس سے کمزور ایمان والے ھیں جو اسکی حکمت کو نہيں سمجھتے اور اسے بھول کر خودکو زمانے کی زد میں چھوڑ دیتے ھیں ۔۔۔ 

پگلی وہ تو بہت پیار کرتا ھے اپنے بندوں سے ۔۔۔۔

بختی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا کتنا پیار کرتا ھے وہ۔۔۔۔۔

 نمل اسکی آنکھوں سے چھلکتی مایوسی بھانپ کر نہایت پیار سے بولی میری جان وہ ستر ماوٶں سے بھی زیادہ پیارکرتا ھے اپنے بندوں سے ۔۔۔۔

بختی نے حیرت سے آنکھیں پھیلاٸیں ۔۔۔ میں نے تو ایک ماں بھی نہيں دیکھی ماں کیسی ھوتی ھے ؟ بلکل تیرے رب جیسی جسے میں نہيں دیکھ سکتی کبھی بھی۔۔۔۔ 

بختی کے اس سوال پر اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا کیونکہ ماں اس نے بھی نہيں دیکھی تھی ۔۔۔۔

بختی بچوں کیطرح اسکی طرف دیکھ کر بکھرے ھوۓ لہجے میں بولی ۔۔۔۔

 نمل اپنے رب سے بول وہ ستر ماوٶں سے زیادہ چاھتا ھے نا اپنے بندوں کو تو کیا میں اتنی بری ھوں کہ اس نے مجھے ایک ماں کے پیار کے قابل بھی نہيں سمجھا اور اسے بھی اتنی دووووور اپنے پاس بلا لیا ۔۔۔۔

نمل کے پاس اسے تسلی دینے کیلیۓ الفاظ ہی جیسے ختم ھو گۓ تھے ۔۔۔۔

وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی ابھی کچھ دیر پہلے تو نے کہا کہ اللہ بہت رحیم ھے مطلب رحم کرنے والاھے وہ کبھی اپنے بندوں کےساتھ غلط نہيں کرتا ۔۔۔۔

نمل نے فوراً ہاں میں سر ہلایا ۔۔

وہ بلکل ایسے انداز سے بول رہی تھی جیسے پاگل ھوتے ھیں اگر وہ رحیم ھے تو مجھے بےرحم ہاتھوں میں کیوں سونپا؟ اگر وہ سچ میں اپنے بندوں کا برا نہيں چاھتا تو مجھے اتنے برے حال میں کیوں رکھا ھوا ھے اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 بختی کی بےبسی کے بوجھ تلے دبی چیخیں نمل کے کانوں میں کسی دھماکے کی طرح گونجیں جو آس پاس کے سارے ماحول کو کچھ لمحہ بہرہ اور اندھا کر دیتی ھیں ۔۔۔۔

بختی نے نمل کو جھنجھوڑا پوچھ اپنے رب سے پوچھ ناں۔۔۔

نمل بمشکل خود کو سنبھال کر بولی ۔۔۔

بختی ایسا نہيں کہتے میری جان تو میرے رب کی ھو کر تو دیکھ وہ سب کچھ تیرا کر دے گا یہ جہاں کیا دونوں جہاں تیرے ھونگے تو خود سوال کر اس سے وہ جواب دیگا تجھے وہی تو ھے جو انسان کو درد و غم کے اندھیرے سے راحت کے اجالے میں لاتا ھے بلکل اسطرح جیسے رات کے اندھیرے کو ابھرتے سورج کی روشنی نگل لیتی ھے لیکن پتہ ھے بختی رات جتنی بھی سیاہ کیوں نا ھو لیکن سورج اس سیاہ سنسان رات کو اپنی آب و تاب سے روشن کرتا ھے وہ انسانوں کی طرح مایوسی کا لباس اوڑھے نہيں نکلتا اور یہ عمل روزانہ ھوتا ھے کبھی ایسا نہيں ھوا کہ سورج رات سے تھک گیا ھو یارات سورج سے شکوہ کنا ھو ۔۔۔۔۔

بختی خاموشی سے خشک ھوتے آنسوٶں سے اسے تکنے لگی جو اپنے رب کے نظام کو بڑی خوبصورتی اور اعتماد سے بیان کر رہی تھی ۔۔۔۔

دیکھ بختی میری باتیں اتنی جلدی نہيں آنی تیری سمجھ میں کیونکہ تو جن کے زیر سایہ ھے وہ مسلمان نہيں لیکن تجھے بھی نہيں معلوم کہ تو کس دین پر ھے ؟ تیرا دل انکے پتھر کے خداوٶں کو نہيں مانتا ناں لیکن میں تجھے اپنے دین پربھی زبردستی نہيں لا سکتی ھمارے مذہب میں جبر نام کی کوٸ چیز نہيں ۔۔۔ اللہ نے تجھے عقل دی ھے نا تو سمجھ اپنے دل کی طرف دیکھ وہ کیا چاھتا ھے؟ کسے قبول کرتا ھے ؟ ان بتوں کو جو بنانے والوں کے محتاج ھیں جن کو یہ بھی نہيں معلوم کو وہ کہاں اور کس مقام پر رکھے جاٸیں گے حتی کہ وہ اپنے اوپر پڑی دھول بھی صاف نہيں کر سکتے ۔۔۔۔۔ 

نمل کی باتیں سن کر وہ اپنے درد کی کیفیت سے نکل کر گہری سوچ میں پڑ گٸ ۔۔۔۔

تو مجھ سے نا کہہ کہ میں اپنے رب سے پوچھوں۔۔۔۔

 وہ تو سب کا رب ھے مسلمانوں کا بھی ھندو، عیساٸ، یہودی ہزاروں مذاہب ھیں ان سب کا بھی وہی رب ھے جو میرا ھے۔۔۔۔

 تیرا دل جسکو قبول کرے اس پر چل لیکن اپنی عقل کو استعمال کرتے ھوۓ ۔۔۔۔ میرا ڈر نا رکھ میں تیرے رستے کی رکاوٹ کبھی نہيں بنوگی نا تجھے چھوڑونگی ۔۔۔۔

بختی کی آنکھوں میں پھر سے آنسو ستاروں کی طرح چمکنے لگے لیکن ان کے ساتھ روح میں اتر جانے والی مسکراہٹ بھی اسکے لبوں پر پھیلی ۔۔۔۔

 نمل قدرت کے اس حسین امتزاج کو تکتی رہ گٸ جو بیک وقت اس نے بختی کے چہرے پر دیکھے تھے ۔۔۔۔۔

وہ گہری سانس لے کر اٹھی میں چلتی ھوں اب انٹی آگٸ تو میری خیر نہيں ۔۔۔

نمل نے اسے زور سے جپھی ڈالی آٸندہ میرے سامنے مت رونا ۔۔۔۔ 

                                       _______


نمل اپنے والد کے ساتھ چند ماہ ھوۓ بختی کے برابر والے گھر میں شفٹ ھوٸ تھی نمل کے والد حافظ قرآن تھے یہاں آتے ہی وہ حافظ صاحب کے نام سے مشھور ھو گۓ اور نمل اپنے اخلاق کی بدولت سراہی جانے لگی بن ماں کے پلی بڑی تھی وہ لیکن والد نے بہت سلجھے اور اعلی اخلاق سے اسکی پرورش کی تھی ۔۔۔

جبکہ بختی کس کی اولاد تھی کوٸ نہيں جانتا تھا وہ تین سال کی تھی جب گوپال کی بہن ساوتری نے اسے گود لیا تھا اور چند ماہ بعد اس لاوارث بچی کو اپنے بھاٸ گوپال کے حوالے کر کہ اس دنیا سے چل بسی تھی ۔۔۔

گوپال کی بیوی سندرتا دیوی ایک بہت ہی بدمزاج اور ظالم عورت تھی اس نے بختی کو اپنے زیر پرستی لینے سے صاف انکار کر دیا گوپال اپنی مری ھوٸ بہن سے کیا وعدہ نا توڑ سکا دیوی کے لاکھ دھمکانے اور مخالفت کے باوجود اس نے بختی کو پالنے کاعہدکر لیا۔۔۔۔

دیوی کو وہ ایک آنکھ نا بھاتی تھی حالانکہ شادی کے دس سالوں میں اسکی ایک ہی بیٹی پیدا ھوٸ تھی بندیا جو بختی سے تین سال بڑی تھی ۔۔۔۔

بختی دیوی کو ایک آنکھ نا بھاتی تھی اس تین سالہ معصوم سی بچی پر وہ ظلم کی انتہا کر دیتی تھی گوپال کی غیر موجودگی میں اسے بھوکا پیاسا رکھتی وہ بچی رو رو کر بلک بلک کر سوجاتی اور کبھی بھوک سے پانی پی پی کر پیٹ پھلا لیتی اور روتی کبھی وہ اسکے غصے کا نشانا بنتی اور دیوی کے نفرت بھرے طمانچے اپنے ننھےسے معصوم سے چہرے پر کھاتی ۔۔۔ اور اکثر پیشاب یا پخانہ کردینے پر دیوی اسے مار مار کر ادھ مرا کر دیتی یا اسے کڑی دھوپ میں بٹھا دیتی ۔۔۔ 

گوپال اسے سمجھا سمجھا کہ تھک گیا تھا لیکن وہ ٹس سے مس نا ھوتی گوپال دیوی کے ظلم سے تنگ آکر اسے کام پر ساتھ لے جاتا تھا  

بختی کے گھر میں آنے کے کچھ عرصے بعد دیوی کو امید لگ گٸ دیوی کیلیۓ یہ بہت بڑی خوشخبری تھی دیوی کے زمین پر پاٶں ہی نہيں ٹکتے تھے کیونکہ دس سال بعد اسے امید لگی تھی اور وہ روز بیٹا پیدا ھونے کے خواب دیکھ کر سوتی آخر نو ماہ بعد وہ دن آ بھی گیا اور اسکے خوابوں کا گھڑا چکنا چور ھو گیا اس نے مردہ بیٹے کو جنم دیا جسکا دکھ وہ برداشت نا کر سکی اور خود کو پیٹ پیٹ کر روتی رہتی اور بختی کو کوستی اور مارتی کہ اس جنم جلی نے کھا لیا اسکے بیٹے کو ۔۔۔ ساتھ میں گوپال بھی اسکی لعن طعن خاموشی سے سنتا تھا دکھ گوپال کو خود بھی بہت تھا بیٹے کے مردہ پیدا ھونے پر لیکن وہ اظہار نا کرتا تھا کہ بھگوان نے دیوی کو سزا دی تھی

 بختی پر ظلم ڈھانے کی۔۔۔۔

بختی تین سال سے پانچ سال کی ھو گٸ تھی وہ اکیلی تنہا کبھی بھوکی اور کبھی آدھی روٹی کھا کر سوتی کھلے آسمان تلے نا بستر نا تکیہ بس اپنے بازو کو سرہانا بناۓ وہ سوتی اگر گوپال اسے اندر لاتا یا اس بچی کے ڈرنے پر اسے اٹھا لیتا تو وہ رات اسے بھی کھلے آسمان تلے بختی کے ساتھ گزارنی پڑتی اکثر وہ اپنے حصے کاکھانا بچا کر بختی کو دیتا تو دیوی ہتھے سے اکھڑ جاتی لیکن گوپال پراسکی کسی بات کا اثر نا ھوتا ۔۔۔۔

بندیا اور پاٸل کے ساتھ جب دیوی کا پیار دیکھ کر معصوم سی بختی اسکے قریب جاتی تو وہ اسے دھکا دے کر پیچھے ہٹاتی جس پر اکثر وہ بہت زور کی گرتی اور پھر دیوی کے ڈر سے بے آواز روتی آنسو اسکے چھوٹے چھوٹے گالوں پر جم جاتے ۔۔۔۔۔ 

پانچ سال کی عمر میں ہی اس نے بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھنا سیکھ لیا تھا اور اپنے آنسو چپ چاپ پینا بھی اس چھوٹی سی عمر میں ہی وہ درد سے اتنی آشنا ھو چکی تھی کہ موسم کی سردی گرمی بھی سہہ لیتی یا پھر قدرت نے اس پر اتنا رحم کیا تھا کہ گرمیوں میں اسکے لیۓ آسمان ٹھنڈا اور سردیوں میں زمیں گرم ھو جاتی تھی۔۔۔۔

گوپال کو اس سے بے پناہ محبت ھو گٸ تھی وہ جب بھی آتا گھر سب سے پہلے بختی کا حصہ اسے دیتا گوپال کا بڑھتا ھوا پیار دیکھ کر دیوی نے اب گوپال کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اگر وہ بختی سے دور نا ھوا تووہ گھر چھوڑ کے چلی جاٸیگی گوپال مجبور اور لاچار تھا اب وہ بہت چھپ چھپ کر بختی سے پیار کرتا تھا کیونکہ وہ دو بیٹیوں کا باپ بن چکا تھا ۔۔۔ دیوی ھمیشہ اسے یہی دھمکی دیتی کہ وہ اسکی دونوں بیٹیاں لے کر روح پوش ھو جاۓ گی۔۔۔ 

وقت گزرتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ نا صرف دیوی کے بلکہ اسکی دونوں بیٹیوں کے ظلم بھی بھڑتے گۓ ۔۔۔

ان سب مظالم کی بھٹی میں بھنتے بھنتے بختی کندن اور سونے جیسے مورت کے ساتھ جوان ھوٸ پل بھر کیلیۓ دیکھنے والے کی آنکھ اس پر ٹھہر سی جاتی تھی ایک عجیب سا سحر تھا اسکی آنکھوں میں جو دیکھنے والے کو گہری سوچ میں ڈال دیتا تھا ۔۔۔۔۔ 

دیوی اسے مختلف ناموں سے بلاتی تھی منہوس ، بد بخت ، جنم جلی ، ڈاٸن ۔۔۔۔ جبکہ بد بخت اسکا نام پک چکا تھا سب کی زبان پر لیکن گوپال ھمیشہ اسے بختی کہہ کر بلاتا تھا ۔۔۔۔ 

نمل کے ساتھ بھی اسکی دوستی کام کاج کرواتے ھوۓ ھوٸ وہ اسکے گھر کام کیلیۓ آتی تھی وہ بھی صرف دنیا کو دکھانے کیلیۓ اور دیوی جیسی لالچی عورت کا پیٹ بھرنے کیلیۓ ۔۔۔جبکہ حقیقت اسکے برعکس تھی بختی روز آتی نمل اسکے ساتھ بہت پیار اور محبت سے پیش آتی اسکے زخموں پر مرہم لگاتی اسے کھانا کھلاتی اپنے کپڑے دیتی اسے پڑھاتی بھی تھی اور حافظ صاحب بھی بختی سے بہت پیار کرتے تھے بختی اور نمل کی بیچ پیار آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتا گیا اور دونوں ایک دوسرے کی جانی دوست بن گٸیں ۔۔۔

                                       ______


ھفتے کا دن تھا بختی نے جلدی سے گھر کا کام ختم کیا اور دوڑتی ھوٸ نمل کے پاس پہنچی کیونکہ نمل کا کل نکاح تھا ۔۔۔۔۔

نمل کےنکاح کا سوٹ اورتمام زیورات سسرال والے دے گۓ تھے اور بختی بہت بے چین تھی کہ وہ نمل کو اس سوٹ میں سب سے پہلے اور فوری طور پر دیکھے کیونکہ اسے دیوی کا معلوم تھا کہ وہ کل نکاح کی تقریب پر اسے نہيں آنے دیگی ۔۔۔۔

بختی کی ضد پر وہ شرارہ پہننے کیلۓ ڈریسنگ روم چلی گٸ ۔۔۔ 

حافظ صاحب اندر آۓ کمرے میں بختی بیٹا نمل کہاں ھے ؟ 

انکل وہ واش روم میں ھے ۔۔۔۔

اچھا میں کسی کام سے بازار جا رہا ھوں کچھ منگوانا ھے تم دونوں نے تو بتا دو ابھی ۔۔۔

بختی نا میں سر ہلاتے ھوۓ بولی نہيں ۔۔۔ اور ساتھ میں نمل کی بھی آواز آٸ نہيں بابا جانی فی الحال کچھ نہيں چاھیۓ۔۔۔ وہ بختی کے سر پر ہاتھ رکھ کے بولے بیٹا دروازہ بند کر لینا ۔۔۔۔

بختی اسکی چیزیں دیکھنے میں اتنی مگن تھی کے درواہ بند کرنا بھول گٸ ۔۔۔۔

بختی کے ہاتھ میں نمل کے سونے کےکنگن تھے جسے دیکھنے میں وہ اتنی گم تھی کہ اسے کسی کے اندر داخل ھونے کا احساس ہی نا ھوا ۔۔۔۔

عین اسی وقت سرخ رنگ کا بے انتہا قیمتی شرارہ پہن کر نمل باہر آٸ تو ان نۓ چہروں کو دیکھ کے گھبرا گٸ بختی بھی فوراً اپنی جگہ سے کھڑی ھوٸ اور ان کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر جیسے ہی اس نے چیخ ماری تو گھر میں داخل ھونے والے تین مردوں نے انہیں قابو کر لیا بختی اس قدر ڈرپوک تھی ایک منٹ میں انکے قابو میں آگٸ جبکہ نمل نے اپنی طرف بڑھنے والے کو روکنے کی کوشش کی جو تمھیں چاھیۓ وہ لے جاٶ لیکن آگے مت آنا وہ کہاں سننے والے تھے اسکی بات ۔۔۔۔ 

وہ مسکرا کر جیسے ہی نمل کیطرف تیزی سے بڑھا نمل نے اسکے ہاتھ میں پستول کی پرواہ کیۓ بغیر اسے تھپڑ دے مارا ۔۔۔۔

تھپڑ جسکے گال پر پڑا اسکا نام جازب تھا پل بھر تو سبھی سکتے میں آگۓ لیکن جازب کی آنکھوں میں خون اتر آیا اس نے نمل کو بالوں سے پکڑ کر پستول اسکے ماتھے پر رکھی اور ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تمھاری اتنی ہمت کہ تم نے مجھے تھپڑ مارا مجھے ۔۔۔۔ غصے سے اسکا چہرہ بھی لال ھو رہا تھا۔۔۔۔۔۔

نمل ذرا بھی نہيں ڈری وہ اس سے بھی زیادہ اکڑ کر بولی کیا کرلو گے تم زیادہ سے زیادہ مجھے جان سے ماروگے نا تو مارو نا رک کیوں گۓ ؟ 

اسکا نڈر پن دیکھ کر جازب کا غصہ مذید بڑھ گیا اتی اکڑ مت دکھاٶ ایک گولی کی مار ھو ۔۔۔۔

تم جو لینے آۓ ھو دفعہ ھو جاٶ یہاں سے لے کر اور مجھ سے دور ہٹو وہ نہایت حقارت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔

جازب کو اسکی ھٹ دھرمی پسند آگٸ وہ اسکے چہرے کے قریب ھوکر بولا ویسے تمھارے آگے تو ان زیورات کی کوٸ اوقات نہيں مجھے تو ان میں سے زیادہ قیمتی تم لگ رہی ھو۔۔۔۔

اسکے اتنے قریب آنے پر نمل نے اسے دھکا دے کر پیچھے ہٹایا ۔۔۔

مرد کہتے ھو خود کو تم اصلحہ ہاتھ میں لے کر تو ہجڑا بھی مرد بن جاتا ھے تم تو ان ہجڑوں سے بھی بدتر ھو جواپنا ناچ دکھا کر پیسہ وصول کرتے ھیں اور تم لوگ اتنے بزدل ھو کہ اپنے زورِبازوٶں پر بھی اعتماد نہيں کہ دو وقت کی روٹی کما کر کھا سکو دوسروں سے چھین کر کھانے والے بھیڑیۓ ھو ۔۔۔

تمھارے مرد ھونے پربھی لعنت ھے ۔۔۔۔

غصہ جازب کے ساتھ اسکے دو ساتھیوں کو بھی بہت آیا اس میں سے ایک زیور سمیٹ کر بولا یار دیکھ کیا رہا ھے منہ توڑ اس سالی کا ۔۔۔۔

جازب نے پسٹل ساٸیڈ پر رکھ کر نمل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھینچا تو وہ اسکے سینے سے جا لگی ۔۔۔

بس اتنا سا دم خم تھا تم میں وہ اسے گھبراتا دیکھ کر ھنسا نمل بن پانی کے مچھلی کیطرح پھڑپھڑاٸ اسکی بانہوں میں لیکن وہ چٹان جیسے مظبوط جازب کی گرفت تھی جس سے نکلنا نمل جیسی نازک سی ڈالی کے بس سے باہر تھا۔۔۔

 جازب کی گرفت اس پر پہلے سے زیادہ ٹاٸیٹ ھوٸ تو اسکی نیت بھانپ کر نمل نے اسکے مسکراتے ھوۓ مکرو چہرے پرتھوک دیا ۔۔۔۔۔

اسے نہيں معلوم تھا کہ وہ راہ چلتا کوٸ معمولی مرد نہيں تھا جو اسکےطمانچے سے ڈرجاتا یہ جازب شاہ تھا چھ فٹ کا چوڑے سینے والا حسین کڑیل جوان جسکے نام سے بھی لوگ کانپ جاتے تھے وہ اپنے گروپ کا کمانڈو تھا جسکی ٹرینگ بھی کسی فوجی کمانڈو سے کم نہيں تھی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی بھی ہمت نا تھی کسی میں اسکے منہ پر پہلے طمانچہ پھر اب تھوک پھینکنے کی غلطی کی تھی اس نے ۔۔۔۔

جازب نے اسے خونخوار نظروں سے ایسے گھورا جیسے ابھی وہ اسے نوچ کھاۓ گا اس نے ایک جھٹکے سے نمل کو بیڈ پر پھینکا ۔۔۔

یہ منظر دیکھ کر بختی بےھوش ھو گٸ کہ اب نمل نہيں بچ پاۓ گی۔۔۔۔۔

نمل فوراً دوسرے ساٸیڈ سے بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ روم میں بھاگنے لگی لیکن سامنے اسکے جازب شاہ تھا وہ روہانسی ھو گٸ دیکھو مجھے چھونا مت ورنہ ۔۔۔۔۔ وہ جازب کے بڑھتے قدم دیکھ کر پیچھے ہٹی تو دیوار سے جا لگی ۔۔۔

جازب اسکے بہت قریب آیا اور دونوں ہاتھ پورے زور سے دیوار پر مارے جو اسکے کندھوں سے قریب تھے نمل بری طرح ڈری اسکا در عمل دیکھ کر ۔۔۔

وہ اسکی بڑی بڑی ہرنی جیسی آنکھوں میں جھانک کر بولا یہ جو تھوک پھینکا ھے میرے منہ پر اسے صاف کرو ۔۔۔۔

نمل بغیر پلک جھپکے بولی کیوں ؟ میں کیوں کروں صاف ۔۔۔۔ اور صاف کرنے کیلیۓ نہيں پھینکا گندے ھو گندگی کا ڈھیر سمجھ کےپھینکا ھے ۔۔۔۔

جازب نے گہری سانس لی اور اسکا دوپٹہ اتارا اور اپنا منہ صاف کیا پھر دوپٹہ پرے پھینکا نمل نے دونوں ہاتھوں سے خود کو چھپانے کی کوشش کی ۔۔۔۔

جازب نے فوراً اسکے ہاتھ پکڑے نانانانانا ۔۔۔۔ مجھ سے کچھ چھپانے کی ضرورت نہيں تمھیں اب ۔۔۔۔

جازب کا انداز ایسا وحشیانہ تھا کہ نمل پسینے سے شرابور ھو گٸ ۔۔۔۔۔

 دددددیکھو ممممم میرے ساااااتھ کچھ غلط مممم مت کرنا ورنہ اچھا ننننن نہيں ھوگا۔۔۔ جازب کے سامنے اسکی آواز پہلی بار کپکپاٸ۔۔۔۔

وہ سر کو داٸیں باٸیں ہلا کر بولا صحیح کہا تم نے اب چھا تو ھو ہی نہيں سکتاجو بھی ھوگا برا ہی ھوگا لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 میری باری ھے ۔۔۔۔۔۔

نمل بری طرح ڈری اسکی بات سن کر ۔۔۔ کیا چاھتے تم۔۔۔۔۔۔

نمل کے سوال پر وہ نہایت کرخت لہجے میں بولا ۔۔۔۔

تمھیں صرف یہ ثابت کرنا چاھتا ھوں کہ ہجڑا اور نامرد نہيں میں۔۔۔۔۔ 

جازب کی بات سن کر نمل کی روح تک کانپ گٸ ایسا کچھ نہيں کرررررر۔۔۔۔۔ ابھی الفاظ اسکے منہ میں ہی تھے کہ جازب نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا اور چند سیکنڈ میں ہی وہ ھوش سے بیگانی ھوکر اسکی بانہوں میں جھول گٸ ۔۔۔۔ 

Episode 2

https://pakeeza-ishq.blogspot.com/2021/04/bd-bhakht-episode-2.html

Post a Comment

Previous Post Next Post