Wrong Call Last Episode

 

رانگ کال
آخری قسط
بہت بہت معزرت صبح سے نیٹ ایشو تھا اسلئے آخری قسط میں تاخیر ہوئی
(سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ اس کہانی کا کسی سچی کہانی سے کوئی تعلق نہیں بس یہ میں نے ایسے ہی لکھنا شروع کی اور یقین کریں میرے ذہن میں کوئی پلاٹ نہیں تھا آپ سب کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئےمیں نے کہانی آگے بڑھائی۔۔۔اگر کسی کو لگے کہ اس کہانی سے اس کی ذات کی کوئی وابستگی ہے تو میں کسی جذبات مجروح نہیں کرنا چاہتی اور جن کے نام استعمال ہوئے وہ بھی فرضی ہیں اسلیئے کوئی دل پہ نہ لے پیشگی معزرت
🙏
)
رکشے والے چاچا نے بسمہ کو قبرستاں کے مین گیٹ پہ اتارا اور ہلکی رفتار سے رکشہ لے گئے۔۔۔بسمہ بالکل ویسی ہی گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی جیسے سب لڑکیاں ہوتی تھیں ۔۔کچھ دیر بعد ویسے ہی عباد کی کال آئی اور اسی طرح بحث مباحثہ کے بعد بسمہ جب قبرستان کے رستے عباد کی قبر تک پہنچی تو بالکل ویسے ہی اس کے تاثرات تھے جیسے اور لڑکیوں کے ہوتے ہیں ۔۔۔اور جب اس نے پلٹ کر جانا چاہا ۔۔۔ویسے ہی ایک ہیولے کے دو ہاتھ اسکی طرف دھکا دینے کے لیئے بڑھے ۔۔۔مگر اچانک چار ہاتھوں نے اس ہیولے کو دبوچا اور تیسرے شخص نے اس کے منہ پہ ٹارچ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔
" چل بے گورگن کی اولاد بہت قبریں کھود لیں اب تیری قبر تھانے میں تیرا انتظار کر رہی ہے "
دونوں پولیس کانسٹیبل اس شخص کو دھکا دیتے ہوئے قبرستان سے باہر لائے ۔۔۔باہر پولیس کی دو گاڑیاں تھیں۔۔ایک میں اس شخص کو ہتھکڑی پہنا کر بٹھایا گیا اور دوسری میں بسمہ کو ۔۔۔
زخموں سے چور جسم کے ساتھ وہ نیم بے ہوش تھا اور اسکی آنکھیں بند ہورہی تھیں کہ اس پہ بالٹی بھر کر پانی پھینکا گیا ۔۔۔جیسے ہی اس نے آنکھیں کھولیں زرد بلب کی روشنی اسے تکلیف دینے لگی وہ چلایا
" بند کرو اسے مجھے اندھیرے میں رہنے دو "
انسپیکٹر نبیل نے اسکے بال مٹھی میں پکڑے اور دھاڑا ۔۔۔
" بہت رہ لیا تو اندھیرے میں اب روشنی ڈال اپنے کرتوتوں پہ تو نے اتنی لڑکیوں کی زندگیاں کیوں خراب کیں۔۔۔۔بول نہیں تو دفناؤ تجھے بھی زندہ قبر میں "
" خراب کو میں کیا خراب کروں گا ۔۔۔آوارہ تھیں۔۔بد چلن بلکہ ہر عورت زندہ دفنانے کے قابل ہوتی ہے ۔۔۔سب کی سب "
وہ چلایا ۔۔۔نبیل نے ایک پنچ مارا اسکے دہانے سے خون آنے لگا
" تجھے پیدا کرنے والی بھی عورت تھی تیری ماں ۔۔۔تو کسی قبر سے نہیں نکلا "
" آخ تھو۔۔۔گالی ہے ماں گالی ہے میرے لیئے۔۔۔میرا بس چلتا تو میں خود اسے زمین میں گاڑتا لیکن میرے باپ نے مار ڈالا اسے ہاہاہا مار ڈالا ۔۔۔مار ڈالا"
وہ جنونی انداز میں ہنس رہا تھا اور ساتھ میں رو رہا تھا۔۔۔ایک حجاب میں لیڈی سائکٹرسٹ جو وہاں موجود تھی اس نے انسپیکٹر نبیل کو اشارہ کیا ۔۔۔انسپیکٹر نے کمرہ خالی کروایا اب صرف وہ سائیکٹرسٹ اور نبیل موجود تھے ۔۔۔
" کیوں مارا تمہارے باپ نے اس عورت کو "
(دانستہ ڈاکٹر نے ماں کہنے سے اجتناب کیا )
" میرے باپ کو دھوکہ دیتی تھی ۔۔۔۔(گندی سی گالی دی)
۔۔میرے سامنے۔۔۔ 8سال کے بچے کے سامنے اپنے یار سے ملتی تھی۔۔۔"
وہ غرایا ۔۔۔وہ اپنے حواس میں نہیں تھا ۔۔۔
" کب سے ایسا کرتی تھی کیا وہ شروع سے ایسی تھی"
" مارتا تھا میرا باپ نشے میں۔۔۔بھوکا رکھتا تھا مجھے اور اسے ۔۔۔پھر اس نے محلہ کے آدمی سے یارانہ کرلیا ہمارا پیٹ بھرتا رہا اور وہ فحاشی پہ اتر آئی "
۔۔۔(پھر گالی دی )
" دو دن میں اس مردہ عفریت کے پاس بیٹھا رہا ۔۔۔پھر اسکا آشنا آیا تو لاش دیکھ کر پولیس لے آیا ۔۔۔میرے باپ کو اڈے سے پکڑ لیا گیا اسے پھانسی ہوگئ۔۔۔۔ایک عورت نے برباد کردیا مجھے۔۔"
وہ پھر چیخنے لگا۔۔۔اور رونے لگا
" پھر کیا ہوا ۔۔۔شاباش ہمت کرو بتاؤ تم کہاں رہے "
" میرا بد فطرت چاچا مجھے لے گیا ۔۔۔چاچی مر چکی تھی ۔۔۔بس ایک بیٹی تھی اسکی کرن ۔۔۔چاچا مجھے غلاموں کی طرح رکھتا ۔۔۔مارتا سب کام کرواتا۔۔۔پڑھایا بھی اسلیئے کہ میں اس کے کام آسکوں ۔۔۔اور اپنی بیٹی سے میرا نکاح کردیا ۔۔۔سالی ۔۔۔۔۔"
ایک اور گالی دی۔۔۔
" تو پڑھ کر تم اچھی زندگی گزار سکتے تھے۔۔۔جاب کرکے کرن کے ساتھ عزت کی زںدگی کو اہمیت کیوں نہیں دی "
۔"
".عزت ۔۔۔۔عزت کہاں سے ملتی ہے عزت۔۔۔نفرت کرتی تھی وہ مجھ سے اس کے باپ کا غلام تھا میں۔۔۔ ایک بزدل کمینہ تھا میں ۔۔۔۔بھاگ گئی وہ میری بزدلی دیکھ کر ۔۔۔تھوک گئی میرے چہرے پہ "
اب وہ چیخ چیخ کر مغلظات بک رہا تھا۔۔۔
".مگر تمہارے پاس تعلیم تھی۔ تم کیوں آگے نہ بڑھے ۔۔۔ "
" مجھے کہیں نوکری نہیں ملی ۔۔سالے رشوت خور سب کے سب مریں گے جہنم میں۔۔۔میں رکشہ چلانے لگا ۔۔۔اور پھر ایک دن کرن مجھے روڈ پہ کھڑی ملی ۔۔۔میں نے رکشہ روکا ۔۔۔"
وہ مجھے دیکھ کر معافی مانگنے لگی ۔۔۔پیروں میں گر گئی ۔۔۔اس کے ساتھ دھوکہ ہوا عزت بھی گئی۔۔۔میں نے اسے رکشے میں بٹھایا ۔۔۔اور اسی قبرستان میں لاکر گھسیٹتا ہوا لے گیا۔۔۔اس کے دوپٹے سے اسکے ہاتھ باندھے اور وہیں پڑے لوہے کے بانس سے گڑھا کھود کر اسے زندہ دفنادیا ۔۔۔۔۔ہا ہا ہا میں نے اپنی ماں کو دفنا دیا ۔۔۔میں نے کرن کو دفنادیا ۔۔۔ہا ہا ہا ۔۔۔زندہ دفنادیا ۔۔۔"
کچھ دیر ڈاکٹر اسے خاموش گھورتی رہی ۔۔۔پھر اس نے کہا باقی لڑکیوں کا کیا قصور تھا۔۔۔
" لڑکی ہونا قصور تھا ۔۔۔اسلیئے ماردیا ۔۔۔جو بھی عورت مرد کے سامنے اپنی عزت رولتی ہے اسے دفنادینا چاہیئے ۔۔۔"
" صباء کو کیوں چھوڑ دیا تم نے "
" وہ بے ہوش ہوگئی تھی اور میں اسے تڑپتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا۔۔اسی لیئے واپس لے گیا۔۔۔میں ہی بابا بن کر رکشہ چلاتا تھا۔۔۔ لڑکی کو چھوڑ کر پیچھے والے گیٹ سے اندر اجاتا تھا ۔۔۔۔میں نے صباء کا موبائل بھی فارمیٹ کرکے دے دیا تاکہ دوبارہ رابطہ ہو میں کسی طرح دوبارہ بلاؤں اور ایسے ہی اذیت دوں اسے مگر اس (گالی) کا موبائل ہی بند تھا "
" کیسے پتہ چلتا ہے تمہیں کہ کون لڑکی لڑکوں سے بات کرتی ہے "
" ہاہاہا یہ جو سوشل میڈیا ہے نا کسی کو نہیں چھوڑتا سب پتہ چل جاتا ہے میں گروپس میں جاتا تھا کبھی شاعر بن کے کبھی مصنف بن کے اور سب پتہ چل جاتا تھا ۔۔۔"
" مگر کبھی سوچا تم نے تمہارا اصل دشمن تمہارا باپ ہی تھا جو مارتھا تھا ماں کو اور تمہیں بھی۔۔۔بھوکا رکھتا تھا ۔۔۔تو دشمنی صرف عورت سے کیوں۔۔۔"
".کیونکہ وہ میری ماں تھی "
وہ اتنی شدت سے دھاڑا۔۔۔کہ ایک لمحہ کو ڈاکٹر بھی ہل گئی۔۔۔
" ماں تھی وہ میری "
اب وہ رونے لگا
" میری ماں تھی۔۔۔اس عورت نے مجھ سے میری ماں چھین لی کسی کی رکھیل بن گئی ۔۔۔میں بھوکا ٹھیک تھا ۔۔۔باپ مارتا وہ ٹھیک تھا ۔۔مگر میری ماں نے کیوں ۔۔۔ماں ۔۔میری ماں چاپیئے۔۔۔۔۔مجھے میری ماں چاہیئے ۔۔۔۔ماں ۔۔۔۔۔ماں"
زخم ادھڑے تو ایک 8 سال کے بچے کا بین باہر آنے لگا... جو اس نے دو دن اپنی ماں کی لاش کے پاس بیٹھ کر برداشت کیا تھا
وہ چیخ رہا تھا ۔۔۔ماں کو پکار رہا تھا ۔۔۔نبیل اور ڈاکٹر اسے تاسف سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔پھر ڈاکٹر نے اس کے بازو میں ایک انجیکشن لگایا اور وہ بے سدھ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں عباد الرحمن ولد شفیق الرحمن ہر عورت سے اپنی ماں کے بچھڑنے کا بدلا لینا چاہتا تھا ۔۔۔اور زندہ دفن کرکے تڑپتا ہوا دیکھ کر میری تسکین ہوتی پھر میں اس لاش کو نکال کر اسے عبرت کا نشان بنا کر دنیا کے سامنے پھینک دیتا تھا ۔۔۔لیکن میں بھول گیا انصاف کرنے کا اختیار جس کے پاس ہے وہ سب دیکھ رہا ہے۔۔۔میں غلط تھا اور میرا انجام آپ کے سامنے ہے
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں صباء حمید بگڑے ہوئے معاشرے کی ایک تصویر ۔۔۔ہم لڑکیاں جب اپنے والدین کی عزت کا جنازہ نکالتی ہیں تو ہم بھول جاتی ہیں کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔میرے اللہ کا شکر ہے کہ میرے ولدین کی کوئی نیکی کام آئی اور میں بچ گئی شاید اسلیئے کہ مجھے زینب سے ملنا تھا ۔۔۔ اب میری پوری زندگی بھی شکرانے میں ادا ہو تو کم ہے
😢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ڈاکٹر زینب ۔۔۔جی ہاں میں ایک سائیکٹرسٹ ہوں ادبی گروپس میں شوقیہ لکھتی ہوں جب میری بات چیت عباد سے شروع ہوئی تو میں سمجھ گئی تھی کہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہے اور اسی وجہ سے میں نے اس سے دوستی کا ڈرامہ کیا تاکہ میں اس کے قریب ہوکر اسکا علاج کر سکوں۔۔۔
دراصل ہماری زندگی میں بہت سے کردار اپنا اہنا اثر چھوڑتے ہیں ۔۔۔مگر جو ہمارے ذہن میں نقش ہوجائے وہ ہی ہماری پوری زندگی کا پیمانہ بن جاتا ہے جیسے عباد کا باپ بھی ظالم تھا جس کی وجہ سے اسکی ماں کو یہ سب کرنا پڑا۔۔۔اس کا چاچا بھی غلط رویہ رکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ بزدل بن کر کرن کے سامنے آیا اور وہ اسے چھوڑ گئ۔۔۔کہنے کو رشوت خور نوکریاں بیچنے والے بھی اس کے مجرم ہوئے ۔۔۔لیکن اس نے چنا تو بس اپنی ماں کو ۔۔۔
جب صباء میرے پاس آئی تو میں نے سوچ لیا تھا کہ اب کیا کرنا ہے اور انسپیکٹر نبیل کے ساتھ مل کر یہ سب کرنے میں کامیابی ملی ۔۔مگر ٹہریں ایک کردار سے اور ملیئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں انسپیکٹر علینہ عرف بسمہ۔۔۔⁦
☺️
⁩ بچپن سے مجھے ایڈوینچرز بہت پسند ہیں۔۔۔جب ڈاکٹر زینب نے سر نبیل سے اپنے پلان کا ذکر کیا تو میں نے فورا اپنی خدمات پیش کرنے کی آفر کی اور ہماری پوری ٹیم کی بھرپور کوششوں سے ہم یہاں تک پہنچے ۔۔۔جی ہاں ٹیم اس گروپ میں اکثر جن لڑکوں کو میں ببانگ دہل کمنٹ میں ہی دوستی کی آفر کرتی تھی وہ سب ہماری ٹیم تھی ٹیم کے علاوہ کوئی اور ہوتا ۔۔۔تو اسکے نمبر وغیرہ سے ہم جانچ پڑتال کرکے اسے بلاک کردیتے تھے اور بالآخر ہم عباد تک پہنچ ہی گئے۔۔۔
اررے رکیں کسی رانگ نمبر سے کال آرہی میں زرا اسے بلیک لسٹ میں ڈال دوں ۔۔۔۔
ختم شد

Post a Comment

Previous Post Next Post