Bd bhakat Episode 8



سچی کہانی : بد بخت 
قسط نمبر : 8


عضد نے کتے کو پیچھے ہٹایا اور جیسے ہی گاڑی کا دروازہ کھولا تو چادر میں لپٹی ہوئی لڑکی اس کے قدموں میں آ گری *عضد* اور نرگس دونوں لڑکی کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گۓ۔۔۔۔

 کتے کے مسلسل  بھونکنے پر لڑکی بری طرح سے ڈری اور نرگس کے پیچھے جا چھپی۔۔۔۔

عضد نے کتے کو چپ کروایا۔۔۔۔

 نرگس نے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا اور پوچھا کون ہو تم؟؟؟

 عضد نے بھی حیرانی سے اسے دیکھا اور کہا کون ہو تم؟؟

 اور کیا کر رہی ہو میری گاڑی میں؟؟

آٸ کیسے تم میری گاڑی میں۔۔۔ اتنے میں بارش ایک دم سے دوبارہ تیز شروع ھو گٸ۔۔۔۔

  نرگس نے لڑکی کی طرف دیکھا اس کی حالت بہت ہی ناساز تھی اور وہ خوف کے مارے کانپ رہی تھی۔۔۔۔

 نرگس اسے اندر لے گئی اور بٹھایا ۔۔۔۔

وہ اس قدر ڈری اور سہمی ہوئی تھی کہ اس نے نرگس کے ہاتھ پوری مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔

 اور مسلسل رو رہی تھی ۔۔۔۔

عضد بھی اسے دیکھ کر حیران تھا بہت لیکن خاموش تھا۔۔۔۔

 نرگس نے جیسے ہی اس کی چادر اتاری اور اسے دیکھاتو وہ پھٹے ہوئے کپڑوں میں بہت بری حالت میں تھی چہرے پر بھی زخموں کے نشان تھے اور دانتوں کے نشان گردن پر دیکھ کر نرگس کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔۔

 نرگس نے بے یقینی سے عضد کیطرف دیکھا۔۔۔۔۔

 نرگس کے اسطرح دیکھنے پر وہ اپنی جگہ پر شدد رہ گیا۔۔۔۔ 

وہ نرگس سے پہلے ہی فوراً بول پڑا مجھے کیوں آپ ایسے دیکھ رہی ہیں میں نہیں جانتا اس لڑکی کو کون ہے یہ۔۔۔۔۔۔

 پوچھیں اس سے ۔۔۔۔

نرگس تو اس لڑکی کی حالت اور پھر عضدکی حالت دیکھ کر شک میں پڑ گئی کہ کیا ہوا ہے؟؟

 عضد بھی زخمی ہے اور اس لڑکی کی بھی حالت ٹھیک نہیں۔۔۔۔

نرگس کی نظروں میں مسلسل شک دیکھ کر وہ لڑکی کی طرف بڑھا اور بازوٶں سے اسے جھنجھوڑ کر کھڑا کیا بتاؤ کون ہو تم؟؟

  وہ اتنی ڈری ہوئی تھی کہ اس نے عضد کو پیچھے دھکا دیا خدا کا واسطہ ھے مت چھوو مجھے۔۔۔۔۔

 مجھ سے دور رہو ۔۔۔

 نرگس بہت بری طرح سے پریشان ہوگئی اس لڑکی کا رد عمل دیکھ کر۔۔۔۔۔

عضد ماں کو دیکھ کر گھبرا کر بولا امی مجھے نہیں پتا کون ہے یہ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔

نرگس غصے سے بولی اگر تم نے کچھ نہیں کیا تو تم تھوڑی دیر خاموش نہیں رہ سکتے۔۔۔۔۔

نرگس نے پہلے اس لڑکی کو پانی پلایا لیکن وہ پانی نہيں پی رہی تھی اور مسلسل ہچکیوں سے روئے جا رہی تھی۔۔۔۔۔

نرگس نے پریشانی سے پوچھا بیٹا کون ہو تم کیا نام ہے تمہارا کہاں سے آئی ہو اور کس نے کی ہے یہ تمہاری حالت کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ کچھ بتاؤں گی۔۔۔۔

 وہ کیا بتاتی اتنی تکلیف میں رونے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔

اس نے بمشکل صرف اتنا کہا آنٹی اس وقت میں بہت تکلیف میں ہوں خدا کا واسطہ ہے مجھے بچالیں میری مدد کر دیں ۔۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑ کر سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔۔

عضد پریشانی سے ہڑبڑا کر بولا امی اس کی باتوں میں نہیں آنا پتہ نہیں کون ہے؟

 کہاں سے اٹھ کر آئی ہے؟

 ایسا نا ھو ہمارے گھر کا صفایا کر دے۔۔۔۔ 

کہیں اس نے پولیس بلوا لی تو کیا کریں گے ہم ۔۔۔ 

اسے گھر سے نکالیں اسی وقت۔۔۔۔ 

عضد کی بات سن کر وہ نرگس  کے پاؤں پڑ گئی۔۔۔

  خدا کا واسطہ ہے آپ کی بھی تو بیٹی ہو گی۔۔۔

مجھے گھر سے اسوقت نا نکالیں۔۔۔۔

 میں کسی چوری کے ارادے سے نہیں آٸ۔۔۔۔

نرگس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہتی اور کیا کرتی اس کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔۔۔۔۔

امی اسکی بات کیوں سن رہی ھیں آپ ۔۔۔۔ 

تم چپ رہو  پوچھ لوں گی میں کون ہے یا تم جاؤ اپنے کمرے میں۔۔۔۔

عضد کے ڈھیٹ بنے کھڑے رہنے پر نرگس پھر بولی چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔

امی یہ جھوٹ بولے گی ۔۔۔

تمھیں کیسے پتہ یہ جھوٹ بولے گی یا سچ۔۔۔۔۔۔ 

نرگس نے آرام سے اس لڑکی سے پوچھا تمہاری اس حالت کا ذمہ دار یہ ھے کیا ۔۔۔

 نرگس نے عضدکی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔۔۔

اس لڑکی نے آنکھوں میں خوف و ہراس لیۓ  ایک نظر عضد کو دیکھا۔۔۔۔ 

وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔۔۔۔

پھر وہ خوف سے لرزتی نرگس سے لپٹ گٸ۔۔۔۔ 

نرگس کو اپنے سارے سوالوں کا جواب مل گیا۔۔۔ 

امی میری بات۔۔۔۔۔

نرگس بلند آواز میں چلاٸ دفعہ ھو جاٶ یہاں سے ۔۔۔۔

عضد ماں کو حیرانی سے دیکھ کر بولا امی یہ جھوٹ بول رہی ہے اس کو چھوڑوں گا نہیں میں جان سے ماردونگا ۔۔۔۔

وہ غصے سے اس لڑکی کی طرف بڑھا۔۔۔۔ 

خبردار اس کو ہاتھ بھی لگایا تو جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔

عضد غم و غصے کی حالت میں پاٶں پٹختا وہاں سے گیا۔۔۔۔۔

نرگس اسے کمرے میں لے گٸ۔۔۔۔

ڈرو مت بیٹا تم محفوظ ہو یہاں۔۔۔۔۔

نام کیا ھے تمھارا۔۔۔۔

رُتابہ۔۔۔۔۔

کہاں سے آٸ ھو۔۔۔۔۔۔۔

وہ خاموش ہو گئ۔۔۔۔۔

 کیا بتاتی کہاں سے آئے ھے۔۔۔۔ کوٸ ایک ٹھکانہ ہوتا اس کا تو بتاتی۔۔۔۔۔۔۔

نرگس نے اسکی طرف دیکھا اور بہت پیار سے بولی بولو بیٹا کہاں سے آٸ ھو ؟؟ 

وہ سر جھکاۓبولی ۔۔۔

نہيں معلوم۔۔۔۔۔۔ اسکے آنسو اسکی گود میں گر رھے تھے۔۔۔

کپڑوں پر اسکے خون دیکھ کر نرگس کا دل دہل کر رہ گیا۔۔۔۔ 

کیونکہ خون عضد کی پینٹ پر بھی موجود تھا۔۔۔۔۔

نرگس نے اسے اپنے کپڑے دیۓ۔۔۔

وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔۔

اس کی حالت دیکھ کر نرگس نے اس سے کہا تم سو جاؤ بیٹا صبح اٹھ کے بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔

وہ درد سے کراہتی ھوٸ لیٹی اسکے پاٶں بھی زخمی تھے۔۔۔۔

روتے روتے اسے الٹیاں لگ گٸیں ۔۔۔۔

نرگس نے اسے نیند کی گولی دی وہ نرگس کا ہاتھ پکڑ کر نیند میں بڑبڑاتی کچھ دیر میں روتے روتے سو گٸ۔۔۔۔۔

البتہ نرگس اور عضد دونوں کی نیند حرام ھوگٸ ۔۔۔

ہزاروں وسوسوں اور خیالوں کے درد نے ان دونوں کو سونے نہ دیا۔۔۔۔۔۔

ایسی کونسی لڑاٸ تھی جس پر عضد کے ہاتھوں پر چاک اور ناخن کے نشان تھے۔۔۔۔

اور اس لڑکی کے چہرے پر بھی ھوس کے بربریت کے نشانات چیخ چیخ کر بتا رھے تھے کہ وہ مرد کی حیوانیت کا شکار ھوٸ ھے۔۔۔۔

سوچ سوچ کر نرگس کا دماغ پھٹ رہا تھا کہ عضد کسی لڑکی کے ساتھ اس طرح کیسے کر سکتا ہے؟؟؟

نرگس کا دل نہيں مان رہا تھا اسی کشمکش میں پوری رات گزر گٸ۔۔۔۔

دوسری طرف عضد کی حالت غیر ھو رہی تھی کہ اسکی ماں کیا سوچ رہی تھی۔۔۔۔ 

کیوں اسکی ماں نے اسے شک کی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔

ایک ایک لمحہ ناقابل برداشت ھوتا جا رہا تھا اس کیلیۓ بھی۔۔ 

                ___________

 نمل رات کو سوتے ہوئے نیند میں بے چینی سے ادھر ادھر کروٹیں بدل رہی تھی

کہ اچانک چلا کر اٹھی۔۔۔۔۔

حافظ صاحب اس کے برابر والے بیڈ پر سو رہے تھے نمل کے چلانے پر وہ بھی اٹھ گئے۔۔۔۔

کیا ھوا نمل بیٹا وہ اسکے پاس آۓ۔۔۔۔۔

نمل گھبراٸ ھوٸ تھی ۔۔۔

بابا بختی۔۔۔۔۔۔۔

مجھے لگتا ھے وہ کسی مشکل میں ھے بابا ۔۔۔۔۔

نمل رونے لگی ۔۔۔

حافظ نے نمل کو تسلی دی اور کہا بیٹا ہم کیا کہہ سکتے ہیں وہ بچی تو ھے ہی بد بخت  اللہ اسے اپنی امان میں رکھے ۔۔۔۔

اٹھو فجر کی اذان ہو چکی ہے نماز پڑھتے ہیں اور اس کے لئے دعا کرو اللہ  سب کو سلامت رکھے۔۔۔۔۔

صبح کا سورج کب کا چڑھ چکا تھا نمل بہت اداس اور بے چین تھی ۔۔۔۔

دروازے کی بیل بجی حافظ صاحب کو گلی کے کچھ مردوں نے باہر بلایا۔۔۔۔۔

نمل بھی پردے کی پیچھے دروازے کے پاس کھڑی ھوٸ۔۔۔۔

حافظ صاحب سے سلام کرکے عظمت نامی شخص بولا ۔۔۔حافظ صاحب آپ ہمیں معاف کیجیے گا لیکن یہ بات کرنا ضروری ہے۔۔۔۔

 آپ کی بیٹی کیسے غوا ھوٸ کون لے کر گیا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔۔۔۔

 جو بھی ہوا ہمیں اس کا افسوس ہے لیکن۔۔۔۔

 حافظ صاحب یہ شریفوں کا محلّہ ہے اور اس سے پہلے ایسا واقعہ کسی کے ساتھ یہاں نہیں ہوا آپ کی وجہ سے یہ کہانی گھر گھر ہر محلے میں دہرائی جا رہی ھے اور ہمارے گھر بھی بچیوں پر اثر پڑ رہا ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ یہ گھر یہ محلہ چھوڑ جائیں۔۔۔۔

وہ خاموشی سے عظمت کو دیکھتے رہے جس کی اپنی چار بیٹیاں تھیں ۔۔۔۔

حافظ صاحب پھر بولے عظمت صاحب آپ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر بڑا افسوس ہوا مجھے کیونکہ آپ خود بھی چار بیٹیوں کے باپ ہیں میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا کیا نہیں یہ سب میرا مسئلہ ہے آپ سب کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔۔

 اور رہی بات آپ کی گزارش کی تو جلد پوری ہو جائیگی۔۔۔۔

 نمل انکی ساری باتیں سن کر زہر کے گھونٹ پی کر رہ گٸی۔۔۔۔۔

      ________________

صبح ھوچکی تھی ۔۔۔۔

نرگس رتابہ کے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔

 لیکن کافی ٹائم گزرنے پر بھی وہ نا اٹھی۔۔۔۔

نرگس اس کے قریب آٸ تو دیکھا وہ تیز  بخار سے بے سدھ پڑی تھی۔۔۔۔۔۔

نرگس اس کی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہوگٸی کہ وہ اس حالت میں اسے ہسپتال نہیں لے کر جا سکتی تھی ورنہ اس پر ریپ کا کیس بن جاتا۔۔۔۔۔

وہ عضد کےکمرے میں گٸ وہ موجود نہيں تھا وہاں۔۔۔۔

کام والی ماصی بھی آگٸ  نرگس نے اسے تین چار دن کی چھٹی دے دی کہ اگر اس نے رتابہ کو اس حال میں دیکھ لیا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔

کیونکہ ابھی تک وہ خود اسے نہيں جانتی تھی۔۔۔۔۔

نرگس نے اسکے زخموں پر مرہم لگایا اور اس کے ماتھے پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں۔۔۔۔

بخار اترنے پر وہ کچھ ھوش میں آٸ۔۔۔۔۔

تو نرگس کو سامنے دیکھ کر ایک دم سے اٹھی۔۔۔۔ 

ککککووون ھیں آپ۔۔۔۔۔ 

کہاں ھوں میں ۔۔۔

وہ اتنی شاکڈ تھی کہ رات کا واقعہ بھولی ھوٸ تھی۔۔۔۔

کیا ھوا رتابہ ۔۔۔۔ نرگس نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔

میں۔۔۔۔ رتابہ نہیں۔۔۔۔ 

پھر کون ھو تم۔۔۔۔۔۔

میں۔۔۔۔۔۔

 سب کچھ یاد آنے پر وہ پاگلوں کیطرح سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔۔۔۔ میں بد بخت ھوں بد بخت۔۔۔۔۔۔۔ 

اسکے لہجے میں اسوقت اتنا درد تھا کہ نرگس کو اپنا دل ڈوبتا ھوا محسوس ھوا۔۔۔۔

نرگس نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیۓ ۔۔۔

کیا کر رہی ھو تم۔۔۔

مجھے مرجانا چاھیۓ تھا کیوں زندہ ھوں میں کیوں۔۔۔۔۔۔

 وہ اس قدر درد سے چلا کر روٸ کہ نرگس بھی خود کو روک نا سکی۔۔۔۔

اس بلکتی ھوٸ بختی کو جب اس نے گلے سے لگایا تو وہ  وہ معصوم سے بچے کیطرح لپٹ گٸ۔۔۔۔۔

نرگس اسے پیار سے سہلانے لگی۔۔۔۔

بس بیٹا بس۔۔۔۔

ماما جی ماما جی کہاں ھیں آپ ماما جی۔۔۔۔۔ وہ چلاتی رہی۔۔۔۔

لٹ گٸ آپکی بختی لٹ گٸ ماما جی ۔۔۔۔ 

کیا کیا آپ نے مجھے مار دیتے نا ایسا نا کرتے تنہا نا چھوڑتے مجھے۔۔۔۔۔۔

نرگس خود بھی روتے ھوۓ اسکا رونا سنتی رہی۔۔۔۔۔

جب وہ کچھ سنبھل گٸ تو نرگس اس کیلیۓ ناشتہ لاٸ ۔۔۔۔

کچھ کھا لو رتابہ بیٹا۔۔۔۔

رتابہ نام نہيں ھے میرا

نام کیا ھے پھر تمھارا۔۔۔۔

نام بھی بدبخت ھے میرا۔۔۔۔۔

اسکے رونے پر نرگس کو اس پر بہت ترس آیا نرگس نے اسے ڈھارس دی۔۔۔۔

اچھا چھوڑو ان باتوں کو کچھ کھا لو۔۔۔۔

وہ کچھ بھی کھانے کو تیار نا تھی۔۔۔

نرگس نے اپنے ہاتھوں سے نوالہ اسکے منہ میں ڈالا تو وہ اور بھی زیادہ رونے لگ گٸ۔۔۔۔۔

مجھے دوسروں کے ہاتھوں سے مار کھانے کی عادت ھے کھانا کھانے کی نہيں ۔۔۔۔

اس کی بات سن کر نرگس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔۔۔

نرگس نے اسے اسوقت اکیلا چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔۔۔۔۔

        _________________

حافظ صاحب نے پڑوسیوں کی وجہ سے وہ محلہ ہی کیا بلکہ وہ شہر ہی چھوڑ دیا جہاں  انہوں نےساری زندگی گزاری تھی۔۔۔۔

یہاں کا مکان بیچ کر فی الحال انہوں نے حیدرآباد میں کرائے کا مکان دیکھ لیا اور نمل کو لے کر وہاں شفٹ ہو گئے۔۔۔۔۔

نمل یہاں آکر بہت بے چین اور بے قرار تھی اسے بختی کی یاد پل پل ستاتی تھی لیکن وہ اسے ملنے سے قاصر تھی اسے نہیں معلوم تھا بختی کہاں ہے اور کس حال میں ھے۔۔۔۔

 دوسری طرف بختی نمل کو اور اپنی حالت کو لے کر بہت پریشان تھی اسے بھی نہیں پتہ تھا کہ نمل کہاں ہے اور کس حال میں ہے زندہ بھی ھے یا نہيں ۔۔۔۔۔۔

میرا حال یہ ھوا ایک گھنٹے میں تو نمل کا اتنے دنوں میں کیا حال ھوا ھوگا۔۔۔۔۔

            ______________

 عضد پورا دن گھر سے باہر تھا  وہ موبائل بھی اپنا گھر چھوڑ گیا تھا شام ہونے کو تھی۔۔۔۔۔ 

نرگس بولائی بولاٸ پورے گھر میں پھرتی رہی کہ  اسکا بیٹا کہاں چلا گیا ۔۔۔۔

دوسری طرف بختی نے خود کو اپنے آپ تک محدود کیا ہوا تھا وہ بالکل چپ چاپ گم صم بیٹھی رہی کیا ھوگیا تھا اسکے ساتھ گوپال کے گھر سے نکل کر وہ راستے کا پتھر بن گٸ تھی۔۔۔۔۔

مغرب کی اذان ھونے لگی اسکے ہاتھ اپنے آپ دعا کیلیۓ اٹھے ۔۔۔۔

اسکے منہ سے صرف اللہ اللہ نکلتا رہا اور آنسو ہتھیلی پر گرتے گۓ۔۔۔۔۔

ان آنسوٶں میں ناکوٸ شکوہ تھا نا کوٸ شکایت بس اپنے اندر بے پناہ درد لیۓ خاموش آنسو تھے۔۔۔۔۔ 

جو رب کی بارگاھ میں قبولیت کے منتظر تھے۔۔۔۔ 

نرگس اندر آٸ اور زبردستی اسے جوس پلایا۔۔۔۔

کچھ پوچھ سکتی ھوں تم سے تمھارے بارے میں ۔۔۔۔

کیا پوچھیں گی آپ ۔۔۔

میرا نام۔۔۔۔

میرا گھر بار۔۔۔۔

میرے ماں باپ ۔۔۔

میرے رشتے درا۔۔۔

کہاں سے آٸ ھوں میں۔۔۔۔

یا میری اس حالت کے ذمہ دار کا نام۔۔۔۔۔۔

نرگس چپ ھوگٸ۔۔۔۔

نام میرا بد بخت ھے۔۔۔۔

گھربار میرا کوٸ نہيں ۔۔۔

ماں باپ کون ھیں کہاں ھیں ۔۔۔ زندہ ھیں یا مر گۓ میں نہيں جانتی۔۔۔۔

رشتےدار میرا کوٸ نہيں سوا اک ماما جی کے جس نے مجھے پالا اسکا بھی مجھ سے کوٸ رشتہ نہيں ۔۔۔۔

یہاں اک زارا نامی عورت کے پاس مجھے کراچی سے بھیجا گیا جس کے پاس میں صرف سات دن رہی ۔۔۔

اور اب اس حالت میں آپ کے پاس ھوں۔۔۔۔ 

اور میری اس حالت کا ذمہ دارکون ھے میں نہيں جانتی۔۔۔۔۔۔۔ 

تم نے پھر اپنا نام رتابہ کیوں بتایا تھا۔۔۔۔۔

میرا ماما مجھے بختی کہتے تھے۔۔۔۔

لیکن اس نام سے میں جہاں جہاں متعارف ھوٸ وہاں وہاں میری بد بختی میرے ساتھ آٸ۔۔۔

اسلیۓ آپکو اس وقت یہ نام بتایا۔۔۔۔

نرگس بولی اب کہاں جانا ھے تم نے بتا دو میں لے جاٶنگی تمھیں۔۔۔۔۔۔

 نا میری زمیں واقف بنتی ھے نا فلک سایہ دیتا ھے۔۔۔

بالاۓ زمیں پر تو میرا کوٸ ٹھکانا نظر نہيں آتا اب ۔۔۔۔

 آپکے یہاں سے جانے پر زیرِ زمیں ہی میرا گھر میرا منتظر ھوگا اب ۔۔۔۔۔

نرگس سوچ میں پڑ گٸ ۔۔۔۔۔

کہ کیا جاۓ اسکا اگر میں نے اسے گھر سے نکالا تو بے آسرا بچی ھے خود کشی نا کر لے یا پھر کسی درندے کے ہاتھ نا لگ جاۓ۔۔۔۔

نرگس نے اسے بغور دیکھا تیکھے تیکھے گندمی نین نقوش میں انتہا کی معصومیت اور بے بسی تھی۔۔۔۔۔۔

نرگس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اسے اپنے پاس اپنی بیٹی بنا کر رکھ لے گی ۔۔۔۔۔

            _______________

عضد رات گۓ گھر آیا وہ بنا ماں سے ملے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔

نرگس اسکے پیچھےآٸ ۔۔۔۔

کہاں تھے تم ۔۔۔۔۔

میں کتنی پریشان تھی جانتے ھو۔۔۔۔

وہ خاموش رہا ۔۔۔۔

یہاں دیکھو میری طرف نرگس نے سختی سے اسکا رخ اپنی طرف موڑا۔۔۔۔۔

مجھے آپ نے میرے خود کیطرف دیکھنے کے بھی قابل نہيں چھوڑا۔۔۔۔۔

معاف کر دو مجھے بیٹا میں نے تم پر شک کیا۔۔۔۔

عضد کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔

امی آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ آپکا بیٹا اتنی گھناٶنی حرکت کریگا ۔۔۔۔۔

بیٹا قصور میرا نہيں حالات سب تمھارے خلاف تھے۔۔۔۔

وہ انگارہ ھوتی آنکھوں سے پلٹا۔۔۔۔

امی میرے ہاتھ پر زخم کے چند نشانات نے میرے زانی ھونے کا ثبوت دے دیا ۔۔۔۔۔

نرگس رو پڑی نا میرے بچے نا ایسی بات نہيں ۔۔۔۔۔

میری جگہ کوٸ اور ھوتا تو وہ بھی یہی سوچتا اسوقت۔۔۔۔

وہ روپڑا۔۔۔

امی آپکی جگہ کوٸ بھی ھوتا مجھے پراہ نہيں تھی۔۔۔۔ لیکن اورں کی جگہ آپ نے لے لی اس بات کا دکھ ھے مجھے ۔۔۔۔۔۔

وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔

میری طرف نہيں دیکھو گے۔۔۔۔

دیکھنے کے قابل نہيں چھوڑا آپ نے مجھے۔۔۔۔۔۔

           ________________

گوپال سندھ میں اپنے لیۓ گھر ڈھونڈ رہاتھا کہ وہ بابو سے چھٹکارا حاصل کر سکے ۔۔۔۔۔

لیکن اسکی بیٹی بندیا بابو سے رابطے میں تھی ۔۔۔

یہاں کی ہر خبر وہ اسے دیتی۔۔۔۔

گوپال کو جب علم ھوا تو اس نے بہت سمجھایا اپنی بیٹی کو پر وہ نا سمجھی ۔۔۔۔ 

اور باپ کے بار بار ٹوکنے پر ماں سے شکایت کر دی ۔۔۔۔

دیوی نے خون لتاڑہ گوپال کو ۔۔۔

وہ ھمیشہ کیطرح خاموش تماشاٸ بن گیا۔۔۔۔۔

         _________________

عضد کو انتہا کی نفرت تھی رتابہ(بختی) سے ۔۔۔۔۔

اسکا بس نہيں چلتا تھا کہ وہ اسے زندہ زمین میں گاڑدیتا۔۔۔

نرگس کے اسے اپنے گھر میں رکھنے پر وہ اب تک ناراض تھا ماں سے۔۔۔۔

نرگس اگنور کرتی رہی کہ کچھ دن میں ٹھیک ھوجاۓ گا۔۔۔۔۔

رتابہ دن بدن نرگس کے دل میں اترتی گٸ۔۔۔

وہ معصوم سی بے ضرر سی لڑکی عزیز ھونے لگی اسے۔۔۔۔

رتابہ (بختی) نے بھی خور کوبہلا لیا تھا کچھ کچھ۔۔۔۔

عضد کسی کام سے کچن میں آیا تو باہر آتی رتابہ اس سے بری طرح ٹکراٸ۔۔۔۔۔

رتابہ کو خود سے ٹکراتا دیکھ کر اسکا خون کھول اٹھا۔۔۔

وہ اسے کندھوں سے دبوچ کر بولا۔۔۔

اگر دوبارہ میرے سامنے بھی آٸ نا تو جان سے ماردونگا تمھیں ۔۔۔۔۔۔

وہ ڈری سہمی پیچھے کو ہٹی ۔۔۔۔

وہ دو قدم اسکی طرف بڑھا ۔۔۔۔

دفع ھو جاٶ یہاں سے اور جتنی جلدی ھو سکے کوٸ اور ٹھکانا ڈھونڈ لو اپنا زیادہ دن میں تمھیں اس گھر میں برداشت نہيں کرسکتا ۔۔۔۔ 

وہ عضد اور اسکے غصے سے بہت خوفزدہ ھو گٸ تھی۔۔۔۔۔ 

وہ جیسے ہی گھر آتا رتابہ خود کو کمرے میں قید کر لیتی ۔۔۔۔

            ______________

چار دن گزر گۓ تھے عضد ماں سے صرف ضروری بات کرتا لیکن آج شام کو گھر وہ بہت خوشی سے لوٹا اور آتے ساتھ ماں کو گلے سے لگا لیا۔۔۔

نرگس تڑپ اٹھی اسے اپنے سینے سے لگا کر ۔۔۔۔

امی میں بہت خوش ھوں آج۔۔۔۔ماں صدقے جاۓ میرے بچے تجھ پر۔۔۔۔

وجہ نہيں پوچھیں گی وہ نرگس کی گود میں سر رکھ کر بولا۔۔۔۔

امی جو انٹرویو میں نے ھمدانی انٹر پراٸز کمپنی میں دیا تھا نا وہاں سے مجھے کال آٸ آج صبح ۔۔۔۔۔

نرگس نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا انہوں نے تو منع کر دیا تھا تجھے۔۔۔۔۔

جی امی لیکن دوبارہ بلایا ھے انہوں نے کل ۔۔۔ آپ دعا کیجیۓ گا اس دفعہ کامیاب ھو جاٶں۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسکا ماتھا چوم کر بولیں تو اس بار کامیاب ھوگا میری جان۔۔۔۔

ماں بیٹے کا یہ پیار دیکھ رتابہ کی آنکھیں اشک بار ھو گٸیں۔۔۔۔

اسکا دل چاہا کاش میری بھی ماں ھوتی میں بھی کسی کی گود میں سر رکھتی ۔۔۔۔۔

ماں کا وجود ماں کا پیار ماں کی گود کیسی ھوتی ھے اسے کچھ نہيں معلوم تھا۔۔۔۔۔

            ______________

جازب کی بڑھتی بے چینی دیکھ کر شاہ جی سے رہا نا گیا وہ اسد کے ساتھ نمل کے گھر جا پہنچا۔۔۔۔

گیٹ پر تالا تھا ۔۔۔۔

گلی میں کسی کو روک کر اس نے پوچھا۔۔۔۔۔

یہ گھر والے کہاں ھیں۔۔۔۔

رکنے والا عظمت تھا۔۔۔

اتنی بڑی گاڑی میں اتنے خوبرو جوان کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔۔۔۔

گھر چھوڑ کر چلے گۓ ھیں حافظ صاحب یہاں سے۔۔۔۔

کہاں چلے گۓ ھیں کچھ پتہ ھے آپکو ۔۔۔۔

نہیں جی کہاں گۓ ھیں یہ تو نہيں معلوم لیکن کیوں گۓ ھیں یہ معلوم ھے ۔۔۔۔۔

شاہ جی نے گلاسز اتارے۔۔۔ کیوں گۓ ھیں ۔۔۔۔

بس جی کیا بتاٸیں انکی بیٹی کا چال چلن اچھا نہيں تھا عین شادی سے دو دن پہلے غاٸب ھوٸ تھی۔۔۔۔

شاہ جی بولا۔۔۔ لیکن میں نے تو سنا تھا وہ اغوا ھوٸ تھی ۔۔۔۔

عظمت بولا۔۔۔

رہنے دیں صاحب جی۔۔۔۔

اغوا کرنے والے کو دوسری بچی نظر نہيں آٸ تھی صرف اسی کو اٹھانا تھا۔۔۔۔۔

کونسی دوسری بچی شاہ جی نے سوال کیا۔۔۔۔

بختی بھی تھی اسکے ساتھ یہ برابر والے گھر کی بچی۔۔۔۔ 

شاہ جی نے برابر والا گھر دیکھا وہاں بھی تالا لگا ھواتھا۔۔۔

یہ بختی والے کہاں ھیں ۔۔۔۔

یہ بھی لگتا ھے گھر چھوڑ گۓ ھیں مہینہ ھو گیا گھر بند پڑا ھے۔۔۔۔

شاہ جی نے اسکا شکریہ ادا کیا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔۔۔۔۔

          _______________

عضد آج شام کو جلدی گھر آگیا تھا ۔۔۔۔

نرگس نہيں تھی گھر میں۔۔۔۔

دروازہ رتابہ نے کھولا۔۔۔

اسے گیٹ پر دیکھ وہ آگ بگولہ ھو گیا۔۔۔۔

امی کہاں ھیں ۔۔۔۔

اسکی بلند آواز سے وہ کانپ گٸ۔۔۔۔

گھر نہيں ھیں وہ بازار گٸیں ھیں ۔۔۔۔

بختی جلدی سے اپنے کمرے میں چلی گٸ ۔۔۔۔۔

عضد کچھ دیر میں اسکے پیچھے اسکے کمرے میں داخل ھوا۔۔۔۔

رتابہ کپڑے طے کر رہی تھی جب اس نے پیچھے سے اسے اپنی بانہوں میں گھیرا۔۔۔۔ 

خوف سے وہ پلٹی ۔۔۔۔

یہ کیا کر رھے ھیں آپ۔۔۔۔

وہی کر رہا ھوں جو کچھ دن پہلے کیا تھا۔۔۔۔

کککک کیا مطلب ھے آپکا ۔۔۔۔ چھوڑیں مجھے اس نے خود کو چھڑانا چاہا۔۔۔۔۔

کیوں چھوڑوں تم نے مجھے چھوڑا تھا اس رات۔۔۔۔۔

خدا کاواسطہ ھے عضد رحم کھاٸیں مجھ پر۔۔۔۔

نہيں آسکتا مجھے تم پر رحم ۔۔۔۔

میری ماں کے سامنے تم نے مجھے رسوا کیا۔۔۔۔

رتابہ نے خود کو بچانے کی کوششش کی ۔۔۔۔

لیکن وہ عضد تھا جسکے ہاتھ میں لوہا بھی موم بن سکتا تھا۔۔۔

یہ تو نازک سی کلی تھی۔۔۔۔

وہ رونے لگی پلیز مت کریں میرے ساتھ اسطرح چھوڑ دیں مجھے۔۔۔۔

وہ عضد کی بانہوں میں بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپی۔۔۔۔

عضد نے اسکا دوپٹہ اتار کر پرے پھینکا۔۔۔۔

ایک بار تو ھو گیا نا ھمارے بیچ یہ سب۔۔۔۔

اب دوبارہ ھونے میں کیسا ہرج کیسی شرم۔۔۔۔۔۔

بلکہ اب تو مجھے جب جب موقع ملا میں یہی سب کرونگا تمھارے ساتھ ۔۔۔۔

جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post