Bd bhakat Episode 6



 سچی کہانی : بد خت 
قسط نمبر : 6

راٸٹر : عرشی نور 

میں تمھیں شادی کی آفر کرتا ھوں ۔۔۔تم نکاح کرو گی ؟؟؟

شاہ جی کی بات سن کر نمل بمشکل بولی ۔۔۔۔ککککیا ۔۔۔۔ نکاح۔۔۔۔ شادی۔۔۔ ؟؟ مجھ سے پہلے کتنی لڑکیوں کی زندگی تباہ کر کے نکاح کر چکے ھیں آپ ؟؟ 

 یہ میرے سوال کا جواب نہيں ۔۔۔۔

آپکو کیا لگتا ھے میں آپکی یہ بمپر آفر قبول کر لونگی؟ آپ جیسے غنڈے اور سڑک چھاپ ڈکیت رہ گۓ میرے ھمسفر بننے کیلیۓ ۔۔۔۔

جن کو نا کسی کی عزت کی پرواہ ھے نا خدا کا ڈر ۔۔۔۔۔

ھم سڑک چھاپ ڈکیت نہيں  شاہ جی غصے سے بولا ۔۔۔۔

توپھر کیا ھیں آپ؟؟ لوگوں  کے رھبر یا خیر خواہ یا لجپال ۔۔۔

شاہ جی کو اس نے لاجواب کر دیا۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔ اور دل ہی دل میں جازب کو کوسنے لگ گیا جسکی وجہ سے آج ایک لڑکی کے ہاتھوں وہ ذلیل ھو رہا تھا۔۔۔ 

جازب سے غلطی ہوئی ہے میں مانتا ہوں لیکن اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں اس لئے میں نے تم سے نکاح کا کہا ورنہ۔۔۔۔۔

ورنہ کیا؟؟ وہ ڈھٹاٸ سے بولی ۔۔۔۔

ورنہ یہ کہ ۔۔۔۔

گھروں سے بھاگنے والی یا اغوا ھونے والی لڑکیوں کو نہ گھر والے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی یہ معاشرہ۔۔۔۔۔

ایسی لڑکیوں کو برباد بھی آپ جیسے مرد ہی کرتے ہیں۔۔۔۔

 نہیں چاہیے مجھے آپ کی غلطیوں کے ازالے اور آپ کا ترس  وہ شاہ جی کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی۔۔۔۔

اندر داخل ھوتے عامر نے اسکی بات سن کر جواب دیا ۔۔۔۔

شاہ جی اسکی اسی بک بک کی وجہ سے آج یہ ھم نامحرم مردوں کے بیچ ھے۔۔۔۔ نا یہ جازب کو چماٹ مارتی نا یہ آج یہاں ھوتی ۔۔۔۔۔ 

شاہ جی کو حیرت کا جھٹکا لگا کیا کہا تم نے ۔۔۔ اس نے جازب کو تپھڑ مارا ۔۔۔۔ 

جی نا صرف تپھڑ مارا بلکہ تھوکا بھی جازب پر  ۔۔۔۔ 

شاہ جی نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر نمل کیطرف دیکھا۔۔۔۔

اتنی ہمت تھی اس میں ۔۔۔۔

ھمت صرف اپنے گھرمیں نہيں یہاں آکر بھی دکھاٸ اسد پر بھی اس نے حملہ کیاتھا اسکا سر پھاڑ کر ۔۔۔۔ 

شاہ جی نے حیرت سے گہری سانس لی ۔۔۔۔ 

تمھیں ذرا ڈر نہيں لگا کہ یہ تمھیں جان سے بھی مار سکتے تھے یا غصے میں تمھاری عزت کی دھجیاں بھی أڑا سکتے تھے ۔۔۔۔۔ 

شاہ جی نے اسکا حال دیکھا بکھرے ھوۓ بال ،گالوں پر انگلیوں کے نشان ، سوجھے ھوۓ ھونٹوں پر ناک سے بہتا ھوا خون جم گیا تھا۔۔۔ اور کٸ راتوں سے جاگتی اور روٸ روٸ آنکھیں ۔۔۔۔ اور اس پر اسکے غصے سے ابلتے جذبات ۔۔۔۔

 شاہ جی کو اس پر ترس آگیا ۔۔۔۔

بےوقوف لڑکی  کسی مرد پر ہاتھ اٹھانے کا مطلب سمجھتی ھو۔۔۔۔۔

نمل نے سر جھکا لیا۔۔۔۔ 

مرد پر ہاتھ اٹھانے کا مطلب اسکے اندر کے سوۓ ھوۓ شیطان کو جگانا ھے ۔۔۔ 

اور جب مرد کا شیطان جاگ جاۓ تو پھر بدلے کی آگ میں وہ اندھا ھو جاتا ھے اسے کچھ سجھاٸ یا سناٸ نہيں دیتا ۔۔۔ 

لڑکی تم نے بہت بڑی غلطی کی جانتی ھو اس اکڑ أور گھمنڈ میں تم نے صرف اپنا نقصان کیا ھے ۔۔۔۔

وہ نمل کے سامنے بیٹھ کر بولا عورت جتنی بھی باھمت اور پر اعتماد ھو وہ مرد کا مقابلہ نہيں کرسکتی ۔۔۔ 

وہ بہت نازک ھوتی ھے بلکل اس تتلی کی طرح جسے اگر ہاتھوں میں پکڑ لیا جاۓ تو ناصرف وہ بےرنگ ھو جاتی ھے بلکہ اڑنے کے قابل بھی نہيں رہتی ۔۔۔۔۔ 

وہ سر جھکاۓ بولی میں نے پہل نہيں کی تھی بدتمیزی میں ۔۔۔اس نے مجھے چھونے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ تبھی میں نے اس پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔ 

یہاں بھی تمھاری غلطی ھے اگر اس نے چھونے کی کوشش کی تھی تو تم اسے زبان سے بھی روک سکتی تھی نا کہ ہاتھ اٹھا کر ۔۔۔ اب نتیجہ دیکھو اپنے ہاتھ اٹھانے کا وہ تمھیں اٹھا کر لے آیا ھے ۔۔۔ 

وہ شاہ جی آنکهوں میں جھانک کر بولی ۔۔۔

تو کیا جازب کی غلطی نہيں یہ ۔۔۔ کیا میں اسے چھونے دیتی خود کو خاموشی سے اسکے آگے تھالی میں پڑے کھانے کیطرح سجا کر پیش کرتی کہ جتنی بھوک لگی ھے اتنا کھا لو باقی جو بچ گیا وہ جوٹھا کسی اور کیلیۓ سہی ۔۔۔ 

غلطی ھے جازب کی بلکہ بہت بڑی غلطی کہ وہ خود کو سنبھال نہيں سکا۔۔۔۔۔

 اس نے میرے گھر میں ہی نہیں یہاں لا کر بھی میرے ساتھ نشے کی حالت میں غیر اخلاقی حرکت کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

شاہ جی نے بے یقینی سے عامر کی طرف دیکھا۔۔۔ 

جازب اور نشے کی حالت میں۔۔۔۔۔۔۔

شاہ جی وہ اسکی بدتمیزی کو بھلا نہيں پا رھا تھا اور پھر اسکی ھٹ دھرمی نے کٸ بار جازب کے صبر کو للکارا اسلیۓ اس نے تھوڑی شراب پی لی تھی ۔۔۔۔

شاہ جی نے ابرو اچکاۓ۔۔۔۔

افففففف لڑکی اک تمھارے پیچھے وہ شرابی بھی ھو گیااور قاتل بھی ۔۔۔۔۔۔۔

اتنا جنون میں نے اسمیں پہلے کبھی نہيں دیکھا۔۔۔ 

شکر کرو کہ تمھاری عزت محفوظ رہی ۔۔۔۔ 

کیونکہ جازب کسی کام کو کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ارادہ کر لے تو پورا کر کے دکھاتا ہے ۔۔۔۔

لیکن پتہ ھے تم اس کی ایک عادت کی وجہ سے بچ گٸ کہ وہ اپنی طاقت یا مردانگی خود سے کمزور انسان پر نہيں آزماتا ۔۔۔۔۔

خیر جو بھی ھوا بہت غلط ہوا ۔۔۔۔ 

لیکن اب جازب کو کوٸ بددعامت دینا ۔۔۔ 

کیوں ؟؟؟ نمل نے شاہ جی کو دیکھا۔۔۔۔

یہ مت بھولو کہ بابر بلوچ کے آدمیوں سے بچا کر وہ تمھارا محافظ بھی بنا ۔۔۔

وہ نا ھوتا تو آج تمھاری لاش سمندر کے کنارے یا بوری بند لاش کی صورت کسی کچرے کے ڈھیر میں پڑی ملتی ۔۔۔

نمل یہ سن کر خوف سے کانپ اٹھی اور باآواز رو پڑی ۔۔۔۔

تم نے ھمیں غلط سمجھا۔۔۔۔

مرد مرد میں فرق ھوتا ھے۔۔۔

ھم گلیوں کے نکڑ پر بیٹھنے والے یا بازاروں میں گھومنے والے چور چکے مرد نہيں جو راہ چلتی عورتوں کو چھیڑ کر ان سے تھپڑ کھاتے یا گالیاں لیتے پھریں ۔۔۔۔

شاہ جی نمل کی فطرت کو سمجھ چکاتھا۔۔۔۔

اور ایسے زانی مرد بھی ہرگز نہيں جو عورتوں کے ٹھاکر ھوں اور انکو صرف اپنے لیۓ وقتی لطف کا سامان سمجھیں۔۔۔۔۔

شاہ جی کی باتیں نمل کے دل میں اترتی گٸیں ۔۔۔۔

اچھی لڑکی ھو تم اور با ھمت بھی لیکن ۔۔۔

نمل کے خاموش لب کھلے ۔۔۔ لیکن کیا ؟؟؟ 

تم زبان بہت چلاتی ھو اسے تھوڑا کنٹرول کر لو۔۔۔۔ 

کیونکہ انسانی جسم میں زبان واحد ایسی چیز ھے جسکاوزن تو بہت ہلکا ھوتا ھے لیکن بہت کم لوگ اسے سنبھال پاتے ھیں ۔۔۔۔ 

اور جب یہی زبان  بلاوجہ کھُلے تو بہت سی مشکلات کی وجہ بن جاتی ھے ۔۔۔۔۔

نمل کے چہرے پر ندامت کے آثار دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔۔۔۔

میراکام تھا تمھیں سمجھانا کہ غلط جازب ہی نہيں تم بھی ھو۔۔۔۔

خیر اللہ تمھیں اور سب کی بہن بیٹیوں کو اپنی امان میں رکھے۔۔۔۔ آمین 

پھر وہ عامر کیطرف پلٹا۔۔۔ 

لے جا یار اسے جازب کے پاس ۔۔۔۔

نمل فوراً بولی۔۔۔ جازب کے پاس کیوں؟ ابھی کچھ دیر پہلے آپ نے مجھے گھر بھیجنے کا وعدہ کیا تھا ۔۔۔۔ 

ہاں وعدہ میں نے کیا تھا اور پورا بھی کردونگا۔۔۔ لیکن فی الحال جازب کی ناراضگی مول نہيں لے سکتا ۔۔ 

میں تمھیں اسی کے حوالے کرتا ھوں وہ مجھ سے بہتر جانتا ھے کہ کیا کرنا ھے ۔۔۔۔۔

                  _______  

بختی نے پوری رات اسی طرح آنکھوں میں گزار دی تھی ۔۔۔۔ 

کون لوگ تھے یہ؟ 

ان کے ساتھ کب تک رہنا تھا بختی کو؟ اور وہ یہاں محفوظ بھی ھوگی یا نہيں ؟؟ 

یہ سوال وہ خود سے کر کر کے تھک گٸ تھی۔۔۔۔۔

صبح کب کی ھو چکی تھی لیکن صبح کے اجالے کا بختی پر کوٸ فرق نہيں پڑا کیونکہ اسکی قسمت میں اندھیرا ہی لکھا تھا۔۔۔ روشنی کی کرنیں اسکے نصیب کی پہنچ سے کوسوں دور تھیں ۔۔۔۔۔  

وھیل چٸیر والی عورت نے اسے پکارا۔۔۔۔ 

نام کیا ھے تمھارا؟؟ 

وہ سر اٹھا کر بولی بدبخت۔۔۔۔۔ 

یہ کیسا نام ھے کس نے رکھا ھے یہ نام تمھارا۔۔۔۔ 

میرے بخت نے ۔۔۔۔۔ 

اچھا اٹھو منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو تم نے رات کو بھی کچھ نہيں کھایا۔۔۔۔ 

بختی اپنے حلق سے ناشتہ بڑی مشکل سے اتار رہی تھی ۔۔۔۔

نوری بیٹا۔۔۔۔ 

احمد اس معذور عورت کی طرف بڑھا اور اسکا ماتھاچوم لیا ۔۔۔۔

بہت خوش لگ رھے آپ خیریت تو ھے نا ۔۔۔۔

احمد نے ہاتھ میں پکڑا پرچہ اسکے سامنے رکھا اور رونے لگے ۔۔۔۔

نوری تیرے آپریشن کی تاریخ مل گٸ آج ۔۔۔۔۔۔

نوری نے باپ کے ہاتھ پرچہ لے کر  حیرت سے دیکھا تو چھم چھم اسکے نین برس پڑے وہ باپ سے لپٹ گٸ ۔۔۔۔ 

ابو ھماری دعا قبول ھو گٸ ۔۔۔۔۔ اللہ نے سن لی میری التجا ۔۔۔

ہاں میری بچی وہ رب چاھے تو کیا نہيں ممکن ۔۔۔۔۔

دونوں باپ بیٹی کا پیار دیکھ کر بختی کے دل میں درد کی ٹیسیں اٹھیں ۔۔۔۔۔کاااااااش میرا بھی کوٸ اپنا ھوتا میں بھی کسی کو اپنا کہہ سکتی میں  بھی کسی سے لپٹ سکتی ۔۔۔۔ 

ابو اب میں چلنے لگونگی نا اپنے پیروں پر۔۔۔۔ وہ خوشی خوشی اپنی ساکت ٹانگوں کو دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔ 

احمد نے بختی کیطرف دیکھا۔۔۔۔ تمھارے قدم بہت مبارک ھیں بیٹا ھمارے یہاں آتے ہی خوشیوں کی بہار لاٸ ھو اپنے ساتھ۔۔۔۔۔ 

احمد کی بات سن کر بختی کے ہاتھ سے چاۓ کا پیالہ چھوٹ گیا۔۔۔۔ 

وہ گھبرا کر جلدی سے کانچ اٹھانے لگی ۔۔۔۔ 

کوٸ بات نہيں بیٹا گھبراٶ مت ۔۔۔۔

میں کٸ مہینوں سے ھسپتال کے چکر کاٹ کاٹ کہ تھک گیا۔۔۔ اسکا ایکسیڈینٹ ھوا تھا جس سے اسکی کمر کے مہرے خراب ھو گۓ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا جلد از جلد اور آپریشن پانچ لاکھ کا تھا میں غریب آدمی کہاں سے لاتا آپریشن نا ھونے کی وجہ سےمیری بچی معذوروں کیطرح زندگی گزار رہی ھے روز گورنمنٹ کے ھسپتال جاتا ہر بار ڈاکٹر اگلے مہینے کا کہہ دیتے تھے ۔۔۔ اور آج ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ دے دی وہ بھی ایک ھفتے بعد ۔۔۔۔

احمد نے بختی کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔

اللہ تمھارے نصیب اچھے کرے بیٹا بہت بختوں والی ھو تم۔۔۔۔۔

احمد کی بات سن کر بختی کے آنسو گالوں پربہنے لگے اور اسکے دل سے نکلتی آوازیں صرف وہی سن سکی  ۔۔۔

خدا میرے جیسے بخت کسی کے نا کرے جسکے بختوں میں در در کی ٹھوکریں لکھی ھوں۔۔۔۔

 پیدا ھونے سے باٸیس سال کی عمر تک یہ چوتھی چوکھٹ تھی جہاں اسے مجبوری کے نام پر لا کر پھینکا گیا تھا ۔۔۔۔

نوری نے اسکا ہاتھ تھاما۔۔۔

 تم بد بخت نہيں خوش بخت ھو۔۔۔ 

               __________

گوپال کے والد کا انتقال ھو گیا وہ اچانک اسی دن فیملی کے ساتھ سندھ روانہ ھو گیا۔۔۔۔ 

یہاں نوری کے آپریشن کی خبر سن کر اسکی چھوٹی بہن انعم  گھر آگٸ اور اپنی جگہ بختی کو مسز جمال کے بنگلے پر کام کیلیۓ چھوڑ آٸ ۔۔۔۔ اور اسکے بدلے کچھ پیسے بھی وصول کر لیۓ ۔۔۔۔۔

اتنا بڑا بنگلہ بختی نے کبھی اپنے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا وہ چاروں طرف  ٹکر ٹکر نگاھوں سے گھرکو تکنے لگی۔۔۔۔ اتنا خوبصورت گھر دیکھ کر اسے لگا کہ جیسے وہ کسی جنت میں آ گئی ھے۔۔۔ 

مسز جمال نے بختی کو غور سے دیکھا کھِلتی ھوٸ سنہری گندمی رنگت اس پر کالی سیاہ آنکھیں اور ان پر دراز پلکوں کی جھالر ۔۔۔۔ مسز جمال کو وہ بہت پسند آٸ ۔۔۔۔ 

نام کیا ھے تمھارا ؟؟؟ 

بختی خاموش ھو گٸ ۔۔۔ کیا کہتی اپنا پیداٸشی نام بد بخت بتاتی یا صبح کو ملنے والا نیا نام خوش بخت ۔۔۔۔۔۔ 

نام پوچھا ھے تمھارا ۔۔۔۔

وہ سہم کر بولی خخخ۔۔۔۔۔خوش بخت۔۔۔۔۔

مسز جمال مسکرائی اور کہا نام تھوڑا پرانا ہے لیکن اچھا ہے ۔۔۔۔

وہ اسے بنگلے کے اندر لے گئی اور سارا کام سمجھانے لگی۔۔۔۔۔      

                                     ________      

شام ھو رہی تھی ۔۔۔۔

نمل اپنے گھٹنوں پر سر رکھے گہری سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔

بختی کی ضد سے لے کر شاہ جی کی باتوں تک سارا منظر فلم کیطرح اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا ۔۔۔ اسے بختی بہت یاد آٸ کہ نمل کے علاوہ اسکا پرسانِ حال کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔ 

وہ کھڑکی سے  ڈھلتے سورج کو تکتی رہی ۔۔۔۔

عین  اسی وقت جازب نے کمرے میں داخل ہو کر اسے پکارا۔۔۔۔۔۔ 

سنو ۔۔۔۔ اپنے گھر جانا ھے تم نے ؟؟؟

نمل نے سر اٹھا کر جازب کی طرف دیکھا۔۔۔۔ 

جازب کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا وہ اس کے منہ سے انکار سننے کا منتظر تھا کہ وہ نہیں جانا چاہتی۔۔۔۔۔ 

جاری ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Episode 7

https://pakeeza-ishq.blogspot.com/2021/06/blog-post.html

Post a Comment

Previous Post Next Post