Pholon Ka Nooha









{ہمارے نئے صفحے 'چینیات' سے ایک سوغات۔}
پھولوں کا نوحہ
تحریر: کاکوزو اوکاکٰورا
ترجمہ: قیصر شہزاد
موسمِ بہار کی کانپتی خاکستری صبح ، جب پنچھی بھید بھری سریلی آوازوں میں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے ہوتے ہیں کبھی آپ نے سوچا کہ وہ اپنے ہم جولیوں سے کس کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے محسوس کیا کہ وہ آپس میں پھولوں کی باتیں کررہے ہوں گے؟
پھولوں سے محبت اور عشقیہ شاعری انسانی تاریخ میں یقیناً ایک ساتھ نمودار ہوئی ہوں گی۔
کسی کنواری روح کے کِھِلنے کو مجسَّم صورت دیکھنا ہو تو مدہوشی کی مٹھاس اور خاموشی کی خوشبو لیے کسی پھول سے بہتر کہاں دیکھیں گے؟
اپنی محبوبہ کو پہلی مرتبہ پھولوں کا گجرا دینے پر ہی ابتدائی انسان درندوں کی سطح سے بلند ہو پایا تھا اور اس طرح فطرت کی خام ضرورتوں سے اوپر اٹھنے میں ہی وہ حقیقی معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق ٹھہرا تھا۔ ایک بے کار شے کے لطیف استعمال کا ادراک کرتے ہی انسان نے آرٹ کے میدان میں قدم رکھ دیا تھا۔
خوشی ہو یا غم، پھول ہمیشہ سے ہمارے ساتھی رہے ہیں۔ ان کو ساتھ لیے ہم کھاتے، پیتے، گاتے، ناچتے اور اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔
ان کے بغیر توہمیں مرنے تک کی جراءت نہیں ہوتی۔
نرگس کے پھولوں کو ہم پوجتے رہے۔ کنول کے پھول کےساتھ ہم مراقبے کرتے رہے ۔ جنگ کی صفوں سے ہم گلاب اور گل داؤدی تھامے دشمن پر ہلہ بولتے رہے۔
ہم نے تو پھولوں کی زبان تک بولنے کی کوشش بھی کی ہے
بھلا ہم پھولوں کے بغیر رہ ہی کیسے سکتے ہیں؟
پھولوں سے عاری دنیا کا تصور ہی انسان کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔
وہ کون سا دلاسا ہے جو بیمار کے پہلو میں رکھے پھول نہ دےسکیں ،
سکون کی وہ کون سی روشنی ہے جو تھکی ہوئی روحو ں کو پھول عطا نہیں کرتے
ان کی پرسکون نرمی کائنات پر ہمارا مدھم پڑتا اعتماد واپس لوٹاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی پیارے سے بچے کی جھیل آنکھیں ہمیں اپنی کھوئی ہوئی امیدیں یاد دلاتی ہیں ۔
جب ہم مٹی میں مل جائیں تو یہ پھول ہی تو ہیں جو ہماری قبروں پر غم کی صورت بنے منڈلاتے رہتے ہیں۔
بات ہے تو رسوائی کی مگر سچ یہی ہے کہ پھولوں کے ساتھ اپنی تمام تر دوستی کے باوجود ہم اپنی درندگی سے بہت زیادہ بلند نہیں ہوسکے۔ بھیڑ کی کھال کو ذرا سا کھرچیے تو ہمارے اندر کا بھیڑا جلد ہی اپنے دانت دکھا دے گا۔
کہتے ہیں کہ دس سال کو پہنچ کر انسان جانور بن جاتا ہے، بیس سال کو سودائی ، تیس کو نامراد، چالیس سال کو دھوکے باز اور پچاس کو پہنچ کر ایک مجرم بن جاتا ہے۔ وہ مجرم غالبا بنتا ہی اسی لیے ہے کہ وہ کبھی جانوروں کی سطح سے اوپر اٹھ ہی نہیں سکا۔
ہمارے لیے اپنی بھوک کے سوا کوئی چیز حقیقی اور اپنی خواہشوں کے علاوہ کچھ بھی مقدس نہیں ۔ کئی معبد یکے بعد دیگرے ہماری آنکھوں کے سامنے مسمار ہوچکے ہیں۔
لیکن ایک قربان گاہ ایسی ہے جس کا ذرّہ بھی متاثر نہیں ہو اور اس قربان گاہ پر ہم عود اور لوبان جلاتے رہتے اور چڑھاوے چڑھاتے رہتے ہیں ۔
بھلا اس معبد میں کون سا دیوتا پوجا جاتا ہے؟ ہم خود! ہمارا خداوند عظیم ہے اور پیسہ اس کا پیغمبر ۔ اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنے کے لیے ہم فطرت کو تباہ و برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔
ہم بڑھک لگاتے ہیں کہ ہم نے مادے پر فتح پالی اور یہ بھول جاتے ہیں کہ مادے نے تو ہمیں غلام بنا لیا ہے۔
ثقافت اور نفاست کے نام پر ہم نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے؟
ذرا مجھے بتاؤ ، پیارے پھولو، باغ میں کھڑے، شبنم اور کرنوں کے قصیدے پڑھتی شہدکی مکھیوں کے نغموں پر سردھنتے، ستاروں کے آنسوؤ!
بتاؤ تو سہی، تمہیں خبر بھی ہے کہ کیسا خوفناک انجام تمہاری گھات میں ہے؟
دیکھے جاؤ خواب
گرما کی نرمیلی ہواؤں میں جب تک رنگ رلیاں مناسکو منالو
کل کوئی بےرحم ہاتھ تمہاری گردنوں کو دبوچ لے گا۔ تمہیں توڑ لیا جائے گا، تمہاری ایک اک پنکھڑی نوچ لی جائے گی، تم اپنے پرسکون گھر سے دور لے جائے جاؤ گے۔
تمہیں نوچنے والی منحوس ہستی ، میٹھی میٹھی باتیں کرنے والی ہوگی۔ وہ تمہاری خوبصورتی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہی ہوگی حالانکہ اس کے ہاتھوں پر تمہارا خون ابھی تازہ تازہ ہوگا۔
ذرا بتاؤ، کیا تم اس عملو کو رحمدلی کہو گے؟
تمہاری قسمت میں ، ممکن ہے، اُسی کے بالوں کا قیدی بن جانا لکھا ہو جس کی سنگدلی کے گواہ تم خود رہے ہو۔
یا اس کے بٹنوں میں سجنا تمہارا مقدر ٹھہرے جو، اگر تم پھول کی بجائے کوئی انسان ہوتے، کبھی تمہاری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھ سکتا ۔
تمہارا نصیب تو کسی تنگ سے برتن میں پھنسا رہنا ہوسکتا ہے جس میں آخری سانس لیتی زندگی کی یاد دلاتی ، پاگل کردینی والی پیاس بجھانے کو صرف باسی پانی ہی پایا جائے۔
پھولو! اگر تم میکادو کے ملک میں ہوتے تو کسی موقعے پر تمہارا سامنا قینچیوں اور ننھی سی آری سے لیس ایک مہیب شخص سے ہو جاتا جو پھولوں کی سجاوٹ کا ماہر ہونے کا دعوی کرتا اور تم پر بالکل ویسے ہی حق جتلاتا جیسے کوئی طبیب مریض پر اور تمہیں فطری طور پر اس سے اسی وقت شدید نفرت ہوجاتی کیونکہ تم جانتے ہو کہ طبیب ہمیشہ اپنے شکار کی تکلیف کو طوالت دیتے ہیں۔
وہ شخص تمہیں کاٹتا اور موڑ مروڑ کر اپنی دانست میں مناسب لیکن تمہارے لیے ناممکن شکل دینے کی کوشش کرتا۔ وہ ہڈیوں کے جوڑ کے کسی ماہر کی مانند تمہارے عضلات مروڑتا اور تمہاری ہڈیوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتا۔ پھر تمہار ا بہتا خون روکنے کے لیے وہ تمہیں دہکتے انگارے سے داغ دیتا اور تمہاری ترسیل بہتر بنانے کو تمہارے جسم میں تاریں گھسیڑ دیتا۔
وہ تمہیں نمک، سرکہ، پھٹکڑی اور کبھی تو تیا تک کھلا دیتا۔ بے ہوش ہونے لگتے تو تمہارے اوپر ابلتا پانی انڈیل دیا جاتا۔ وہ شخص بڑھ ہانکتا کہ اس عمل سے گزرے بغیر تم جتنا عرصہ زندہ رہ سکتے ہو وہ تمہیں اس میں مبتلا کرکے دو چار ہفتوں تک زندہ رکھ سکتا ہے ۔
کیا تمہارے دل میں یہ خواہش نہ ابھرتی کہ کاش قید ہوتے ہی تم مار دیئے جاتے؟
اپنے پچھلے جنموں میں نہ جانے تم ایسے کون سے پاپ کماتے رہے کہ تم ایسی سزا کے حق دار ٹھہرے!




پھولوں کو اتنا حسین لیکن اس قدر بے بس کیوں بنایا گیا؟
کیڑے کاٹ سکتے ہیں، کمزور ترین درندہ بھی زچ ہو جانے پر اپنے بچاؤ کے لیے پلٹ کر حملہ ضرور کرتا ہے۔
ٹوپیوں کی آرائش کے لیے جن پرندوں کے پروں کی ڈھنڈیا پڑی رہتی ہے اپنا تعاقب کرنے والے سے بچنے کے لیے اڑ سکتے ہیں ۔
ہم جن جانوروں کی سمور حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی شکاری کی بو پاتے ہی چھپ سکتے ہیں۔
افسوس!
تتلی کے علاوہ طاقتِ پرواز رکھنے والے کسی پھول سے ہم واقف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ !
تتلی کے علاوہ باقی سب قاتل کے سامنے بے بس کھڑے رہتے ہیں۔
اگر وہ جان کنی کے عالم میں چیخ و پکار کریں بھی تو ہمارے پتھرائے ہوئے کانوں تک ان کی چیخیں کبھی نہیں پہنچ سکتیں۔
سب سے زیادہ ستم تو انہی پر ڈھاتے ہیں جو ہم سے پیار کرتے اور خاموشی سے ہماری خدمت میں لگے رہتے ہیں ،
مگر وہ وقت دور نہیں جب اپنی اسی سنگ دلی کے کارن ہمارے یہ بہترین دوست ہمیں اکیلا چھوڑ جائیں۔
دیکھتے نہیں جنگلی پھول ہر سال پہلے سے زیادہ نادر و نایاب ہوتے جارہے ہیں؟
شاید ان کے سیانوں نے انہیں کہہ دیا ہو جب تک انسان انسان نہ بن جائے وہ سب کہیں غائب ہوجائیں۔
شاید وہ جنتوں کو ہجرت کرگئے ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post